Ruh-ul-Quran - Al-Qalam : 23
فَانْطَلَقُوْا وَ هُمْ یَتَخَافَتُوْنَۙ
فَانْطَلَقُوْا : تو وہ چل دئیے وَهُمْ يَتَخَافَتُوْنَ : اور وہ چپکے چپکے باتیں کررہے تھے
پس وہ چلے اور آپس میں چپکے چپکے کہہ رہے تھے
فَانْطَلَقُوْا وَھُمْ یَتَخَافَتُوْنَ ۔ اَنْ لاَّ یَدْخُلَنَّھَا الْیَوْمَ عَلَیْکُمْ مِّسْکِیْنٌ۔ وَّغَدَوْا عَلٰی حَرْدٍ قٰدِرِیْنَ ۔ (القلم : 23 تا 25) (پس وہ چلے اور آپس میں چپکے چپکے کہہ رہے تھے کہ آج باغ میں کوئی مسکین نہ آنے پائے۔ اور سویرے چلے لپکتے ہوئے عزم و حوصلہ کے ساتھ۔ ) یعنی گھر سے نکلے تو چپکے چپکے ایک دوسرے کو ہوشیار کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ دیکھنا آج کے دن کوئی فقیر باغ میں گھسنے نہ پائے۔ یعنی یہ ان کے انتہائی بخل کی دلیل تھی جس کا ذکر اشرافِ قریش کی صفاتِ بد میں بھی ہوچکا ہے۔ حرد، کا معنی منع کرنے اور غیظ و غضب دکھانے کے ہیں۔ اس میں تیزگامی اور عزم و حوصلہ کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے خیال میں یہ سمجھ کر چلے کہ ہمیں اس پر قدرت ہے کہ ہم کسی فقیر مسکین کو کچھ نہ دیں، کوئی آ بھی جائے تو اس کو دفعہ کردیں۔ ان کے دل اعتماد اور حوصلے سے مامور تھے کہ باغ اپنا ہے، پھل تیار ہے اب اس کی فصل حاصل کرنے میں کون سی چیز حائل ہوسکتی ہے۔ ہمارے باپ کے زمانے میں غریبوں اور مسکینوں کو جو کچھ ملا کرتا تھا ہم نے اس کا بھی سدباب کردیا ہے۔
Top