Ruh-ul-Quran - Al-Qalam : 34
اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ
اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ : بیشک متقی لوگوں کے لیے عِنْدَ رَبِّهِمْ : ان کے رب کے نزدیک جَنّٰتِ : باغات ہیں النَّعِيْمِ : نعمتوں والے
بیشک اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ان کے رب کے پاس نعمت بھری جنتیں ہیں
اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ عِنْدَرَبِّہِمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ ۔ (القلم : 34) (بیشک اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ان کے رب کے پاس نعمت بھری جنتیں ہیں۔ ) اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کا انجام گزشتہ آیات میں ان لوگوں کا انجام بیان ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نبیوں کی تکذیب کرتے، قیامت کا انکار کرتے اور اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت اور پیغمبر کے مقابلے میں تکبر اختیار کرتے تھے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں ان منکرین اور متکبرین کے برعکس زندگی گزارنے والوں یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کا انجام بیان ہورہا ہے۔ جن لوگوں نے ایمان و عمل کا راستہ اختیار کیا اور ہر فیصلہ کرنے اور ہر کام سے پہلے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کے احکام کو دیکھا اور اس کے مطابق زندگی گزاری اور ظاہر و باطن کو اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگ لیا۔ اور زندگی کا سب سے بڑا مقصد اللہ تعالیٰ کے احکام کی فرمانبرداری اور اس کے دین کی سربلندی کو قرار دیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں متقی کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھیں قیامت کے دن نعمتوں والے باغوں سے نوازا جائے گا جن میں ان خوش نصیب لوگوں کو ایسی نعمتیں دی جائیں گی جنھیں نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل میں اس کا خیال گزرا۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ انھیں وہ سب کچھ دیا جائے گا جس کی وہ خواہش کریں گے۔ دنیا میں خواہشوں اور ارمانوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو ناممکن الوجود ہیں لیکن جنت میں چونکہ زندگی کے ضوابط بدل جائیں گے اور امکان و عدم کے پیمانے تبدیل کردیئے جائیں گے۔ اس لیے وہاں کوئی خواہش بھی ناممکن نہیں ہوگی۔ ادھر کسی جنتی کے دل میں خیال آئے گا، اسے زبان تک آنے میں دیر ہوسکتی ہے لیکن اس کی عطا میں دیر نہیں ہوسکتی۔
Top