Ruh-ul-Quran - Al-Qalam : 35
اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ كَالْمُجْرِمِیْنَؕ
اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ : کیا بھلا ہم کردیں مسلمانوں کو۔ فرماں بردار کو كَالْمُجْرِمِيْنَ : مجرموں کی طرح
کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کے برابر کردیں گے
اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ ۔ مَالَـکُمْ وقفۃ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ ۔ (القلم : 35، 36) (کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کے برابر کردیں گے۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے، تم کیسے حکم لگاتے ہو۔ ) اچھوں اور بروں میں فرق عقل اور اخلاق کا تقاضا ہے متکبرین اور منکرین کے لیے عذاب اور متقین کے لیے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے معمور جنتیں، پیش نظر آیت کریمہ میں اس پر عقلی دلیل بیان فرمائی گئی ہے۔ انسانی دنیا میں ہر جگہ اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ اگر چند لوگ کسی منصب اور کسی ڈیوٹی پر فائز کیے جاتے ہیں ان میں کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنے فرائض کو باحسن طریق پورا کرتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو کام چوری کرتے یا جس ادارے سے تنخواہ لیتے ہیں اس کی اصل حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار بھی کرتے ہیں اور جب بھی کبھی ادارے پر نازک وقت آتا ہے تو اس کی بقا اور تحفظ کے لیے محنت کرنے اور جان لڑانے سے گریز کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں کوئی ایسا ادارہ ہے جو ان دونوں طرح کے لوگوں کو برابر سمجھتا ہو، ان کی ایک جیسی عزت افزائی کی جاتی ہو، ایک جیسی مراعات دی جاتی ہوں، دونوں کو سزا دی جاتی ہو یا دونوں کو انعام دیا جاتا ہو۔ یقینا کہیں ایسا نہیں ہوتا۔ جو ادارے کے وفادار اور خدمت گزار ہیں ان کے کام کی قدر کی جاتی ہے، انھیں مراعات دی جاتی ہیں اور انھیں انعام کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ اور جو ادارے کے دشمن، غدار، کام چور اور صرف تنخواہ سے غرض رکھنے والے ہیں انھیں نہ صرف انعام کا مستحق نہیں سمجھا جاتا بلکہ انھیں سزا دی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک شخص اپنی خواہشات کی تکمیل یا اپنی ذات کی سربلندی کی ہوس میں اندھا ہو کر دوسروں پر ظلم کرتا، حق تلفیاں کرتا اور بعض دفعہ جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اور ایک دوسرا آدمی ہے جو ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ڈر کر حقوق کی پاسداری کرتا ہے، لوگوں سے احسان و مروت سے پیش آتا ہے اور مقاصد کی سربلندی کے لیے جس خدمت اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے وہ کبھی اس سے دریغ نہیں کرتا۔ تو کیا ان دونوں کو عقل، علم اور اخلاق کی نگاہ میں برابر سمجھا جائے گا اور اگر ایسا ہے تو سوال یہ ہے کہ پھر نیکی کا تصور کیا ہوگا۔ برائی بری کیوں سمجھی جائے گی، ظلم سے کوئی بچنے کی کیوں کوشش کرے گا، مظلومیت مدد کے قابل کیوں ہوگی، قاتل اور مقتول میں کیا کوئی فرق باقی رہ جائے گا، کیا حرمت جان، حرمت مال اور حرمت آبرو کا کوئی تصور کسی سطح پر بھی باقی رہ جائے گا۔ اگر یہ سب باتیں ان دونوں کو برابر سمجھنے کا نتیجہ ہیں تو کیا انسانی زندگی کی بقا اور انسان اور حیوان میں فرق باقی رکھنے کے لیے کیا اس بات کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ ہے کہ فرمانبردار، قانون کے پابند، اخلاق کے پیکر اور جرائم پیشہ لوگوں کو برابر نہ سمجھا جائے۔ یہی انسانیت کا سرمایہ ہے اور یہ وہ تعلیم ہے جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں نے دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر مسلم اور مجرم برابر نہیں اور اچھائی اور برائی یکساں نہیں اور ظلم اور عدل ایک ترازو میں برابر نہیں رکھے جاسکتے، تو پھر اس بات کا ہمارے پاس کیا جواب ہے کہ لوگ قتل ہوتے ہیں لیکن قاتل پکڑے نہیں جاتے یا پکڑے جاتے ہیں تو رشوت یا سفارش کے زور سے چھوٹ جاتے ہیں۔ طاقتور کمزور کو دبا کے رکھتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں، نیکی کمزور ہونے کی وجہ سے منہ چھپائے پھرتی ہے اور بدی سربازار رقص کر رہی ہے۔ اچھی باتیں کتابوں میں پڑھی جاتی ہیں لیکن ایوانِ حکومت میں برائی کا دوردورہ ہے۔ اور کسی کے پاس ایسی کوئی طاقت نہیں جو ہر سطح پر اس صورتحال کو بدل سکے۔ قرآن کریم اس کا ایک ہی جواب دیتا ہے کہ جب تک لوگوں کے دلوں میں قیامت کا عقیدہ راسخ نہیں کیا جائے گا اور لوگ اس پر یقین نہیں کریں گے کہ ہمارا ہر عمل محفوظ کیا جارہا ہے۔ ایک دن ایسا آنے والا ہے جب ایک ایک عمل کی جوابدہی کرنا پڑے گی۔ وہاں طاقتور بھی پکڑے جائیں گے اور قاتل بھی نہ چھپ سکیں گے اور نہ چھوٹ سکیں گے۔ اس وقت تک انسانی معاملات اور انسانی زندگی کی اصلاح کی کوئی صورت نہیں۔ یہی وہ بات ہے جو اس آیت کریمہ میں ارشاد فرمائی گئی ہے۔ اور دوسری آیت میں اس بات کے ساتھ ساتھ ایک اور بات کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے۔ مشرکینِ عرب کا عقیدہ یہ تھا کہ جو لوگ دنیا میں خوشحال، معزز اور بڑی حیثیت کے مالک ہیں وہی آخرت میں بھی معزز ہوں گے۔ کیونکہ دنیا میں ان کا عزت پانا اور دولت و حشمت سے بہرہ ور ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں مقبول ہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ ان کو یہ سب کچھ عطا نہ کرتا۔ تو جو لوگ یہاں مقبول ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قیامت کے دن ان کو مردود ٹھہرایا جائے اور جو لوگ آج نان شبینہ کے محتاج اور جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں یہ قیامت کے روز بھی اسی طرح نادار اور قلاش ہوں گے۔ اس کی تردید کرتے ہوئے اشارہ فرمایا گیا ہے کہ ہم تمہاری عقل پر یہ فیصلہ چھوڑتے ہیں کہ کیا عقل ایک مجرم اور قانون کے پابند اور اس کے فرمانبردار کو برابر قرار دیتی ہے۔ کیا عقل کی نگاہ میں ظالم اور مظلوم یکساں ہیں۔ کیا عقل یہی سمجھتی ہے کہ اچھائی اور برائی میں کوئی فرق نہیں۔ یقینا عقل ایسا نہیں سمجھتی۔ وہ ان دونوں کی یکسانی کو تسلیم نہیں کرتی۔ وہ برائی سے نفرت کرتی اور نیکی کو فروغ دیتی ہے۔ اگر امرواقعہ یہ ہے تو پھر تم کیسے سمجھتے ہو کہ تم نے دنیا میں اپنی دنیوی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھایا، اسے ظلم کا ذریعہ بنایا، شب و روز عیش و عشرت میں گزارے اور عفت و عصمت کے نہ جانے کتنے فانوس گل کیے۔ اور تمہارے مقابلے میں نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے والے جو کردار کی عظمت اور اخلاق کی دلآویزی رکھتے ہیں۔ تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو کہ وہ پیٹ سے بھوکے بھی ہوں تو صبر کی تصویر ہوتے ہیں۔ دولت ان کے قدموں میں ڈھیر کردی جائے، تب بھی وہ اس کی ہوس میں مبتلا نہیں ہوتے، تو آخر تمہیں اور انھیں قیامت کے دن برابر کیسے سمجھ لیا جائے۔ افسوس ہے تم پر تم کس طرح کے فیصلے کرتے ہو۔
Top