Ruh-ul-Quran - Al-Qalam : 39
اَمْ لَكُمْ اَیْمَانٌ عَلَیْنَا بَالِغَةٌ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ۙ اِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُوْنَۚ
اَمْ لَكُمْ : یا تمہارے لیے اَيْمَانٌ : کوئی عہد ہیں۔ قسمیں ہیں عَلَيْنَا : ہم پر بَالِغَةٌ : باقی رہنے والی اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن تک اِنَّ لَكُمْ : بیشک تمہارے لیے لَمَا تَحْكُمُوْنَ : البتہ وہ ہے جو تم فیصلہ کرو گے
یا تمہارے لیے روز قیامت تک ہم پر کچھ عہد و پیمان ثابت ہیں کہ تمہیں وہی کچھ ملے گا جس کا تم فیصلہ کرو گے
اَمْ لَـکُمْ اَیْمَانٌ عَلَیْنَا بِالِغَـۃٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لا اِنَّ لَـکُمْ لَمَا تَحْکُمُوْنَ ۔ (القلم : 39) (یا تمہارے لیے روز قیامت تک ہم پر کچھ عہد و پیمان ثابت ہیں کہ تمہیں وہی کچھ ملے گا جس کا تم فیصلہ کرو گے۔ ) اگر تمہارے پاس کوئی کتاب نہیں تو پھر یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی عہدوپیمان اللہ تعالیٰ نے تم سے ایسا کر رکھا ہو جو قیامت تک باقی رہنے والا ہے کہ تم جو چاہو گے ہم تمہارے ساتھ وہی معاملہ کریں گے تو پھر وہ عہد و پیمان پیش کرو۔ ظاہر ہے کہ ایسی کوئی چیز ان کے پاس نہ تھی جسے وہ پیش کرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آخرت کی فوزوفلاح کے جو وعدے قوموں سے کیے ہیں وہ ایمان اور عمل صالح اور اس عہد کی پابندی کے ساتھ مشروط ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے واسطے سے لوگوں سے لیے ہیں۔ غیرمشروط طور پر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کسی کی بخشش یا سرفرازی کا کوئی وعدہ نہیں فرمایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جنھیں ابوالانبیاء کہا جاتا ہے، یہودیت، مسیحیت اور اسلام تینوں میں ان کا بڑا احترام ہے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی قربانی کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا : اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماً ” کہ میں آپ کو لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ “ یعنی اس وقت کی دنیا کی دینی امامت و قیادت آپ کے سپرد کی جارہی ہے۔ تو آپ نے پوچھا کہ کیا یہ منصب میری اولاد کو بھی ملے گا، تو جواب میں فرمایا گیا کہ ” میرا یہ عہد ان کو شامل نہیں ہے جو آپ کی اولاد میں سے میرے عہد کو توڑ کر اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بن جائیں گے۔ “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ جب بھی کوئی عہد کیا ہے تو اس کی بنیاد ایمان و عمل کو بنایا۔ ظالم اسی کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر، اس کی توحید پر اور آخرت پر عمل کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا تا ہو۔ اور آخرت سے انکار کے باعث بےعملی یا بدعملی کی زندگی گزارتا ہو اور احکامِ شریعت کی پروا نہ کرتا ہو۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جس خیال خام میں قریش مبتلا تھے اسی فریب کا شکار یہود بھی تھے۔ وہ بھی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور اس کے چہیتے قرار دیتے تھے۔ اور اسی لیے اپنے آپ کو ہر مسئولیت سے بالاتر سمجھتے تھے۔
Top