Ruh-ul-Quran - Al-Qalam : 46
اَمْ تَسْئَلُهُمْ اَجْرًا فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَۚ
اَمْ تَسْئَلُهُمْ : یا تم سوال کرتے ہو ان سے اَجْرًا : کسی اجر کا فَهُمْ : تو وہ مِّنْ مَّغْرَمٍ : تاوان سے مُّثْقَلُوْنَ : دبے جاتے ہوں
کیا آپ ان سے کوئی معاوضہ طلب کررہے ہیں کہ وہ اس چٹّی کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں
اَمْ تَسْئَلُھُمْ اَجْرًا فَھُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْـقَلُوْنَ ۔ (القلم : 46) (کیا آپ ان سے کوئی معاوضہ طلب کررہے ہیں کہ وہ اس چٹّی کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں۔ ) مخالفین کی بےحسی پر اظہارِتعجب جس شخص کے دل میں احساس کی کوئی رمق بھی باقی ہو وہ جب یہ دیکھتا ہے کہ کوئی شخص نہایت غمگساری اور ہمدردی کے ساتھ مجھے خاص بات کی طرف دعوت دے رہا ہے اور میری زندگی کے چلن پر وہ نہایت محکم اور معقول تنقید کررہا ہے جس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ اور وہ شب و روز اس کام میں مصروف ہے اور اس کا مجھ سے یا دوسرے لوگوں سے کسی معاوضے کا طلبگار نہیں تو وہ کبھی نہ کبھی ضرور سوچتا ہے کہ آخر اس شخص کی جان ماری و سخت کوشی اور ہمدردی اور غمگساری کی کوئی حقیقت تو ہوگی۔ جب وہ مجھ سے کچھ نہیں چاہتا اور خون جگر پی پی کر میری اصلاح کی فکر میں ہے تو مجھے کبھی تو اس کی بات پر غور کرنا چاہیے۔ لیکن قریش پر اس رویئے کا کوئی اثر نہیں ہورہا اور وہ سوچنے کی زحمت اٹھانے کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔ قرآن کریم اظہارِ تعجب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تم آخر کس مٹی کے بنے ہوئے ہو۔ کسی جانور سے بھی اتنی ہمدردی کی جائے تو وہ بھی مانوس ہونے لگتا ہے۔ لیکن تمہارے اندر کسی بات کا کوئی اثر نہیں۔ ہمارے پیغمبر کی بےغرضی بھی تمہیں اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکی تو اس پر تعجب اور دکھ کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ آیت میں خطاب اگرچہ آنحضرت ﷺ سے ہے، لیکن روئے سخن مخالفین کی طرف ہے۔
Top