Ruh-ul-Quran - Al-Qalam : 47
اَمْ عِنْدَهُمُ الْغَیْبُ فَهُمْ یَكْتُبُوْنَ
اَمْ : یا عِنْدَهُمُ : ان کے پاس الْغَيْبُ : کوئی غیب ہے فَهُمْ يَكْتُبُوْنَ : تو وہ لکھ رہے ہیں
کیا ان کے پاس غیب کا علم ہے، پس وہ اس کو لکھ رہے ہیں
اَمْ عِنْدَھُمُ الْغَیْبُ فَھُمْ یَکْتُبُوْنَ ۔ (القلم : 47) (کیا ان کے پاس غیب کا علم ہے، پس وہ اس کو لکھ رہے ہیں۔ ) گزشتہ مضمون کا تسلسل اس آیت میں بھی خطاب آنحضرت ﷺ سے ہے لیکن اصل مخاطب مخالفین ہی ہیں۔ ان کی بےپروائی اور بےنیازی پر اظہارِ تعجب کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ کیا ان کے پاس علم غیب ہے جس کو وہ لکھ رہے ہیں کہ قیامت میں اعلیٰ مدارج انھیں کے لیے ہیں اور نبی کریم ﷺ جو کچھ فرما رہے ہیں، ان کے اس علم کے مطابق بالکل غلط ہے۔ نہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور نہ وہ حقائق صحیح ہیں جنھیں وہ بیان کررہے ہیں۔ اور اگر ان کے پاس علم غیب نہیں (اور فی الواقع نہیں) تو پھر زندگی کے حقائق سے آنکھیں بند کرلینا بلکہ نہایت ڈھٹائی سے آنحضرت ﷺ کی دعوت کو رد کردینا اپنے لیے ابدی ہلاکت کا سامان کرنے کے سوا اور کیا ہے۔ سورة النجم میں یہی بات جس طرح ارشاد فرمائی گئی ہے اس سے پورا مفہوم واضح ہوجاتا ہے۔ اَعِنْدَہٗ عِلْمُ الْغَیْبِ فَھُوَ یَرٰی 5 اَمْ لَمْ یُنَـبَّـاْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسٰی 5 لا وَاِبْرٰھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰیٓ 5 لا اَلاَّ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی 5 لا ٍ ( علیہ السلام) کیا اس کے پاس علم غیب ہے پس وہ دیکھ رہا ہے (آخرت میں اپنے مدارج کو) ؟ کیا موسیٰ کے صحیفوں میں جو بات بتائی گئی ہے اس کی خبر اس کو نہیں ملی ؟ اور اس ابراہیم کی تعلیمات میں بھی جس نے اپنے رب کے ہر حکم کو پورا کیا ؟ کہ کوئی جان بھی کسی بھی دوسری جان کا بوجھ اٹھانے والی نہیں بنے گی۔
Top