Ruh-ul-Quran - Al-Qalam : 48
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ١ۘ اِذْ نَادٰى وَ هُوَ مَكْظُوْمٌؕ
فَاصْبِرْ : پس صبر کرو لِحُكْمِ رَبِّكَ : اپنے رب کے حکم کے لیے وَلَا تَكُنْ : اور نہ تم ہو كَصَاحِبِ الْحُوْتِ : مانند مچھلی والے کے اِذْ نَادٰى : جب اس نے پکارا وَهُوَ مَكْظُوْمٌ : اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا
پس اپنے رب کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کیجیے اور مچھلی والے کی طرح نہ ہوجائیے جب انھوں نے اپنے رب کو پکارا اور وہ غم سے گھٹے ہوئے تھے
فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلاَ تَـکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ م اِذْنَادٰی وَھُوَ مَکْظُوْمٌ۔ (القلم : 48) (پس اپنے رب کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کیجیے اور مچھلی والے کی طرح نہ ہوجائیے جب انھوں نے اپنے رب کو پکارا اور وہ غم سے گھٹے ہوئے تھے۔ ) آنحضرت ﷺ کو دعوت پر جمے رہنے کی تلقین مشرکینِ مکہ کی روز بروز بڑھتی ہوئی اذیت رسانیوں سے یقینا مسلمان متأثر ہوتے تھے اور بعض دفعہ جب تکلیفیں ناقابلِ برداشت ہونے لگتیں تو آنحضرت ﷺ سے التجا کرتے کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ان پر عذاب نازل کرے۔ ممکن ہے کبھی نبی کریم ﷺ کے قلب مبارک میں بھی یہ خیال پیدا ہوتا ہے تو اس پر آنحضرت ﷺ کو ضبط، برداشت اور استقامت کی نصیحت فرمائی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت کے سلسلے میں جو کچھ آپ ﷺ کے ساتھ پیش آرہا ہے، یہ اس راہ کی لازمی سنتیں ہیں، قوموں نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں کے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کیا ہے۔ اور آپ ﷺ کے پیش نظر تو سب رسولوں سے زیادہ کٹھن ذمہ داری ہے کیونکہ آپ ﷺ کے بعد کوئی رسول نہیں آئے گا جو آپ ﷺ کے چھوڑے ہوئے کام کو مکمل کرسکے تو اس لیے آپ ﷺ میں کسی طرح کی بھی جلد بازی پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ اس راستے کے آخری چراغ آپ ﷺ ہیں، اس لیے آپ ﷺ کو ہر صورت جلنا ہے اور روشنی دینی ہے۔ رہی یہ بات کہ ان لوگوں پر عذاب کیوں نہیں آرہا، تو اس کی حکمت کو ہم جانتے ہیں۔ انھیں کب تک مہلت دینی ہے اور کب تک ان کی آزمائش جاری رہنی چاہیے، یہ سب باتیں ہماری حکمت سے متعلق ہیں۔ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ آپ ﷺ کی دعوت کے حتمی نتائج ظاہر ہونے لگیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کی فتح و نصرت اور مخالفین کی شکست کا فیصلہ ہوجائے۔ اس لیے ابھی آپ ﷺ کو ان مصائب پر صبر کرنا ہے۔ آپ ﷺ حضرت یونس (علیہ السلام) کی طرح نہ کریں کہ انھوں نے لوگوں کے مطالبے سے تنگ آکر عذاب کی دعا کردی اور ان کی طرف سے دعوت کی ناقدری کو دیکھتے ہوئے مرکزِ دعوت کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے اذن کا انتظار کیے بغیر چلے گئے۔ اور اسی کے نتیجے میں ان کو وہ آزمائش پیش آئی جس کا ذکر سورة یونس اور سورة الانبیاء میں گزر چکا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کو صاحب الحوت (مچھلی والا) نہایت پیار سے فرمایا گیا ہے اور اس لیے بھی کہ آپ ( علیہ السلام) کو مچھلی نے نگل لیا تھا اور آپ ( علیہ السلام) اس امتحان میں مبتلا کردیئے گئے تھے۔ تب آپ ( علیہ السلام) کو اندازہ ہوا کہ میں نے اپنے مقام دعوت کو چھوڑ کر جلد بازی سے کام لیا ہے۔ مجھے اللہ تعالیٰ کے اذن کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ چناچہ نہایت شدید قسم کے غم سے گھٹے ہوئے انھوں نے مچھلی کے پیٹ کے اندر سے اپنے رب سے فریاد کی اور وہ زندہ جاوید الفاظ ان کی زبان سے نکلے جو آیت کریمہ کے نام سے معروف ہیں۔
Top