Ruh-ul-Quran - Al-Qalam : 49
لَوْ لَاۤ اَنْ تَدٰرَكَهٗ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَآءِ وَ هُوَ مَذْمُوْمٌ
لَوْلَآ : اگر نہ ہوتی یہ بات اَنْ تَدٰرَكَهٗ : کہ پالیا اس کو نِعْمَةٌ : ایک نعمت نے مِّنْ رَّبِّهٖ : اس کے رب کی طرف سے لَنُبِذَ : البتہ پھینک دیا جاتا بِالْعَرَآءِ : چٹیل میدان میں وَهُوَ : اور وہ مَذْمُوْمٌ : مذموم ہوتا
اگر ان کے رب کی مہربانی ان کے شامل حال نہ ہوتی تو وہ مذمت کیے ہوئے چٹیل میدان ہی میں پڑے رہتے
لَوْلَآ اَنْ تَدٰرَکَـہٗ نِعْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ لَـنُبِذَ بِالْعَرَآئِ وَھُوَ مَذْمُوْمٌ۔ (القلم : 49) (اگر ان کے رب کی مہربانی ان کے شامل حال نہ ہوتی تو وہ مذمت کیے ہوئے چٹیل میدان ہی میں پڑے رہتے۔ ) نعمت سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ فضل اور اس کی مہربانی ہے جو حضرت یونس (علیہ السلام) کو نصیب ہوئی کہ جب انھوں نے مچھلی کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ کو پکارا، اپنی فروگزاشت کا اعتراف کیا اور اس پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کی توبہ قبول فرمائی بلکہ فریضہ رسالت پر ازسرنو مامور فرمایا۔ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل و احسان نہ ہوتا تو جس طرح ریت پر مچھلی نے ان کو ڈالا تھا اسی پر نہایت مذموم حالت میں پڑے رہ جاتے اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہ ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے غیرمعمولی حالات پیدا فرمائے۔ جب وہ مچھلی کے پیٹ سے باہر پھینکے گئے تو سانس کی آمدورفت کے سوا ان کے اندر کوئی طاقت نہ تھی۔ دھوپ سے بچنے کی ان میں سکت نہ تھی۔ کس طرح ان پر سایہ کیا گیا، کس طرح ان کی خوراک کا انتظام کیا گیا، کس طرح خاص پودے کا رس ان کے منہ میں نچوڑا گیا اور غیرمعمولی طریقے سے ان کو چند دنوں میں صحت دے دی گئی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی عنایات تھیں جو محض اس کے فضل سے ان کو حاصل ہوئیں۔
Top