Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 11
وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ١ۖ٘ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا١٘ وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا١٘ وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا١ؕ اُولٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ
وَلَقَدْ ذَرَاْنَا
: اور ہم نے پیدا کیے
لِجَهَنَّمَ
: جہنم کے لیے
كَثِيْرًا
: بہت سے
مِّنَ
: سے
الْجِنِّ
: جن
وَالْاِنْسِ
: اور انسان
لَهُمْ
: ان کے
قُلُوْبٌ
: دل
لَّا يَفْقَهُوْنَ
: سمجھتے نہیں
بِهَا
: ان سے
وَلَهُمْ
: اور ان کے لیے
اَعْيُنٌ
: آنکھیں
لَّا يُبْصِرُوْنَ
: نہیں دیکھتے
بِهَا
: ان سے
وَلَهُمْ
: اور ان کیلئے
اٰذَانٌ
: کان
لَّا يَسْمَعُوْنَ
: نہیں سنتے
بِهَا
: ان سے
اُولٰٓئِكَ
: یہی لوگ
كَالْاَنْعَامِ
: چوپایوں کے مانند
بَلْ
: بلکہ
هُمْ
: وہ
اَضَلُّ
: بدترین گمراہ
اُولٰٓئِكَ
: یہی لوگ
هُمُ
: وہ
الْغٰفِلُوْنَ
: غافل (جمع)
ہم نے جنوں اور انسانوں میں سے بہتوں کو دوزخ کے لیے پیدا کیا ہے ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں ‘ ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں ‘ ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں ‘ یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے یہی لوگ ہیں جو بالکل بیخبر ہیں۔
ارشاد فرمایا وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ز صلے لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَازوَلَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا ز وَلَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا ط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَّلُ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغَفِلُوْنَ ۔ (الاعراف : 179) ” ہم نے جنوں اور انسانوں میں سے بہتوں کو دوزخ کے لیے پیدا کیا ہے ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں ‘ ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں ‘ ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں ‘ یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے یہی لوگ ہیں جو بالکل بیخبر ہیں “۔ ایک غلط فہمی اور اس کا ازالہ یہ آیت اپنے اندر معنوی اعتبار سے بہت گہرائی رکھتی ہے اس لیے اسے گہرے تدبر اور بصیرت سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آیت کے پہلے جملے میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے بہت سے لوگوں کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے کہ ان کی پیدائش کا مقصد اگر جہنم میں بھیجنا ہے تو پھر ان سے ایمان یا عمل صالح کی امید کیسے کی جاسکتی ہے ؟ ایمان اور عمل صالح تو اہل جنت کی صفات ہیں اور ان دونوں سے بہرہ ور لوگ جنت میں جائیں گے۔ جہنمی تو وہ لوگ ہوں گے جو ان دونوں صفات سے عاری اور بےبہرہ ہوں گے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ نے انھیں جہنم ہی میں بھیجنے کے لیے پیدا کیا ہے تو ان کے لیے انبیاء کی بعثت اور کتابوں کا نزول بھی بےمعنیٰ ہو کر رہ جاتا ہے اس لیے سب سے پہلے تو اس جملے پر غور کرلینا چاہیے۔ بات یہ ہے کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اہل جہنم اور اہل جنت کو پیدا کس نے کیا ہے ؟ تو اس میں تو دو رائیں نہیں ہوسکتیں کہ دونوں کا پیدا کرنے والا پروردگار ِ عالم ہی ہے اس لیے اگر اس جملے میں اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ میں نے بہت سارے لوگوں کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے تو اس میں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اہل جہنم بھی یقینا اسی کی مخلوق ہیں البتہ تعجب کا باعث یہ ہوسکتا ہے کہ اس سے یہ سمجھا جائے کہ اللہ کے پیدا کرنے کے سبب سے وہ جہنم میں جائیں گے تو اس آیت کا ہرگز مفہوم نہیں کیونکہ یہاں جہنم پر جو لام ہے وہ لام غایت کے لیے نہیں بلکہ عاقبت کے لیے ہے یعنی جس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو جہنم کے لیے پیدا نہیں کیا گیا پیدا تو ان کو ویسے ہی کیا گیا ہے جیسے باقی انسانوں اور جنوں کو کیا گیا ہے اور انھیں وہی خصوصیات عطا کی گئی ہیں جو باقی جنوں اور انسانوں کو دی گئی ہیں۔ البتہ ! یہ وہ لوگ ہیں جو بالآخر اپنے کرتوتوں کے باعث انجام کار جہنم میں جائیں گے جس سے ایک بات یہ واضح ہوتی ہے کہ ہر چیز کا سر رشتہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور دوسری یہ بات کہ ان کا جہنم میں جانا پیدائش کے اعتبار سے نہیں بلکہ زندگی کے طرز عمل کے انجام کے اعتبار سے ہے کیونکہ یہ اپنی طبعی ‘ جبلی ‘ فطری اور عقلی خصوصیات میں بالکل ویسے ہی ہیں جیسے باقی انسان ہیں۔ اس بات کا ذکر اگلے جملے میں کیا گیا ہے کہ جس طرح ہم نے باقی انسانوں کو دل و دماغ ‘ عقل و حواس دے کر پیدا کیا ہے اور جن کے صحیح استعمال سے وہ اپنی صحیح منزل تک پہنچیں گے وہی ساری نعمتیں ان کو بھی عطا کی گئی ہیں انھیں مشاہدات کی قوت بھی دی گئی ہے ‘ سمعی ذرائع بھی بخشے گئے ہیں اور دل و دماغ کی قوتوں سے بھی نوازا گیا ہے لیکن ان کا المیہ یہ ہے کہ انھوں نے نہ اپنی نگاہوں سے کام لیا جیسا لینا چاہیے تھا ‘ نہ اپنی قوت سامع سے کام لیا جیسا اس کا حق تھا اور نہ اپنے دل و دماغ کی قوتوں کو استعمال کیا جس طرح انھیں استعمال کرنا چاہیے تھا نتیجہ واضح ہے کہ کسی شخص کو بہتر سے بہتر اسباب دے دئیے جائیں لیکن وہ انھیں استعمال نہ کرے تو اسے ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں مل سکتا۔ ایک مسافر کو سواری کی ضرورت ہوتی ہے، آپ اسے ایک تیز رفتار گاڑی دے دیں لیکن اسے پیدل چلنے پر اصرار ہو تو آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی دور کی منزل کو کیسے پاسکتا ہے۔ پیدل چلنے والے سے بھی کبھی نہ کبھی منزل کے حصول کا گمان ہوسکتا ہے، لیکن جو سرے سے گھر بیٹھ رہے نہ پائوں کو حرکت دے اور نہ گاڑی کو باہر نکلنے دے، اس کے بارے میں تو کوئی اچھی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ ان لوگوں کے بارے میں بھی یہی فرمایا جا رہا ہے کہ انھیں ہم نے حواس اور عقل کے حوالے سے وہ سب کچھ عطا کیا جس کی انسانی زندگی میں ضرورت ہے لیکن انھوں نے اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں سے یا تو کام لینے سے انکار کردیا اور اگر ان سے کوئی کام لیا بھی تو وہ کام لیا جس کے لیے انھیں پیدا نہیں کیا گیا تھا۔ اللہ نے انھیں آنکھیں عطا فرمائیں، ان کے سامنے سورج چمکتا رہا ‘ چاند دمکتا رہا ‘ ستارے ٹمٹماتے رہے ‘ صبح حسن کی پیغامبر بن کر طلوع ہوتی رہی ‘ شام پردہ شب میں محجوب ہوتی رہی ‘ رنگ و روپ کا سیلاب اپنی طرف متوجہ کرتا رہا ‘ قوسِ قزح آنکھ مچولیاں کرتی رہی ‘ پھول کھلتے رہے، کلیاں چٹکتی رہیں ‘ زمین سبزے کے مخملیں لباس میں ملبوس ہوتی رہی ‘ فصلیں نقرئی لباس پہنتی رہیں ‘ گھٹائیں جھوم جھوم کر اٹھتی رہیں ‘ بہار کے موسم میں ہوائیں اٹھکیلیاں کرتی رہیں ‘ چشمے ابلتے رہے ‘ آبشاریں گرتی رہیں، مختصر یہ کہ صوت و معنی کا ایک سیل امڈتا رہا لیکن انسان کی نگاہوں نے اس کائناتِ حسن کے پیچھے جھانکنے کی کبھی کوشش نہ کی۔ اس نے گلاب کے پھول سے زیادہ سے زیادہ یہ تو جانا کہ اس سے گلقند بنائی جاسکتی ہے لیکن یہ کبھی غور نہ کیا کہ اگر اس سے صرف گلقند ہی بنانا ہوتی اور اس کی تخلیق کا صرف یہی مقصد ہوتا تو پھر پھول کی پتیوں پر باریک خطوط کھینچنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اسے ریشم سے زیادہ ملائم بنانے اور خوبصورت روپ دینے کی حاجت کیا تھی ؟ کہیں اس سے یہ مقصود تو نہ تھا کہ پھول کی ایک ایک پتی سے اس کے خالق کے حسن کا نظارہ کرنے کی کوشش کرو۔ لیکن انسان کی بےبصیرتی ملاحظہ ہو کہ اس کی آنکھوں نے ظاہر کا نظارہ ضرور کیا اور اس سے محظوظ بھی ہوا لیکن یہ جاننے کی کبھی کوشش نہ کی کہ پس آئینہ کیا ہے اسی طرح اللہ نے اسے قوت سماعت عطا فرمائی۔ اس نے فضاء میں رنگ کے ساتھ ساتھ آہنگ کا بھی ایک جہان آباد دیکھا اس نے انسانی گلے میں لحن دائودی کے کرشمے دیکھے اس نے انسانی گلے سے نفرت و محبت کے نغمے پھوٹتے سنے اس نے جلال و جمال کے نظارے محسوس کیے ‘ اس نے پرندوں کے زمزوں اور نغموں کے شور میں ابلتی ہوئی موسیقی سنی لیکن اس نے یہ جاننے کی کبھی کوشش نہ کی کہ ان نغموں ‘ ان زمزموں اور موسیقی کے ان سازوں کا پیدا کرنے والا کون ہے ؟ اگر وہ اپنی قوت سماعت کو حقیقی طور پر استعمال کرتا تو اسے ایک ایک آواز کے ساتھ پیدا کرنے والے کی آواز بھی سنائی دیتی لیکن اس کی قوت سماعت نے وہ کبھی حقیقی کام نہ کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ ٹالسٹائی روس کا ایک مشہور ادیب گزرا ہے عیسائی تھا پھر خدا کا انکار کر بیٹھا اور کیمونسٹ ہوگیا اپنی مشہور کتاب (اے کنفشن) میں لکھتا ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک شام میں ٹہلتا ہوا جنگل میں نکل گیا، سورج غروب ہونے کے قریب تھا، پرندے اپنے آشیانوں کو لوٹ رہے تھے ‘ سورج کی کرنیں چھن چھن کر درختوں سے نیچے اتر رہی تھیں ‘ پرندوں کے نغموں ‘ چہچ ہوں اور زمزموں نے موسیقی کا ایک جہان آباد کردیا تھا۔ میں اس ترنم میں ایسا ڈوبا کہ اپنی ذات سے نکل کر کائنات کی وسعتوں سے نکلتا ہوا وہاں پہنچ گیا جہاں سے یہ حسن پھوٹتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ اندر سے مجھے آواز سنائی دی کہ تم جو خدا کا انکار کر رہے ہو اگر واقعی کوئی خدا نہیں تو بتائو یہ رنگ و نور اور یہ موسیقی کا جہاں کس نے پیدا کیا ہے ؟ کہتا ہے کہ جیسے جیسے میں اس پر سوچتا گیا ویسے ویسے میرے دل کی سیاہی دور ہوتی گئی بالآخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ واقعی اس کائنات کا کوئی پیدا کرنے والا بھی ہے اور اسی نے مجھے بھی پیدا کیا ہے۔ اس آیت کریمہ میں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ انھیں اللہ تعالیٰ نے یہ ساری نعمتیں اور یہ ساری صلاحیتیں عطا فرمائیں جن سے انھوں نے کبھی کام نہیں لیا اگر یہ ان سے کام لیتے تو یقینا ٹالسٹائی کی طرح یہ بھی کسی صحیح نتیجہ پر پہنچ سکتے تھے لیکن انھوں نے آنکھیں ہوتے ہوئے بھی اللہ کی نعمتوں کو نہ دیکھا اور کان ہوتے ہوئے بھی اللہ کے پیغمبر کی آواز کو نہ سنا اور دل و دماغ ہوتے ہوئے بھی انھوں نے کبھی سوچنے سمجھنے کی زحمت نہ کی کہ جس طرح یہ کائنات خود بخود پیدا نہیں ہوسکتی یقینا اسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو بغیر کسی مقصد کے پیدا کیا ہے۔ قرآن کریم نے ایک سے زیادہ جگہ اس بات کا ذکر فرمایا ہے کہ لوگ کسی نہ کسی حد تک اس بات کے قائل تو ہیں کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے لیکن وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ تم مکان رہنے کے لیے بناتے ہو ‘ زمین کی کاشت غلہ حاصل کرنے کے لیے کرتے ہو ‘ تجارت کی مشقتیں معاش پیدا کرنے کے لیے برداشت کرتے ہو ‘ شادی بیاہ بچے پیدا کرنے کے لیے کرتے ہو یعنی تمہارے ہر کام کا اور تمہاری ہر محنت کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے لیکن اس بات کی طرف تم کبھی دھیان نہیں دیتے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی کائنات اور بطور خاص انسان کو بغیر کسی مقصد کے پیدا کیا ہے اور پھر اس کا اگر کوئی مقصد ہے اور یقینا ہے تو کیا اس کا پیدا کرنے والا اور اسے مقصد دینے والا کبھی اس سے جواب طلبی نہیں کرے گا۔ ارشاد فرمایا : افحسبتم انما خلقنکم عبثاً وانکم الینا لا ترجعون کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں فضول پیدا کیا ہے اور تم (جواب دہی) کے لیے ہمارے پاس لوٹائے نہیں جاؤ گے۔ حقیقت یہ ہے جسے اس آیت میں واشگاف کیا جا رہا ہے کہ انسان اپنے حواس سے بھی کام لیتا ہے اور اپنی عقل سے بھی لیکن اس کا یہ کام لینا حیوانیت سے آگے نہیں بڑھتا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام حیوانات کو زندگی گزارنے کا طریقہ بھی سکھایا اور اس کے اسباب بھی عطا فرمائے۔ حشرات الارض سے لے کر جنگل کے بڑے بڑے جانوروں تک کوئی جانور ایسا نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے یہ نہ سکھایا ہو کہ اس نے بچے کس طرح پیدا کرنے ہیں، پھر بچے کس طرح پالنے ہیں، ضروریاتِ زندگی کہاں سے مہیا کرنی ہیں، اپنا گھر کیسے بنانا ہے، موسم کی شدت سے کیسے بچنا ہے ‘ حشرات الارض کو اس نے رینگنا سکھایا ہے تو اسی کے مطابق ان کو ماحول بھی دیا ہے۔ پرندے اس نے فضاء میں بلند کیے ہیں تو انھیں اڑنا بھی سکھایا ہے ‘ مچھلیوں کو پانی میں رکھا ہے تو انھیں تیرنا بھی سکھایا ہے ‘ پرندے بھی اپنا آشیانہ بنا کر رہتے ہیں اور جنگل کے درندے بھی اپنے بھٹ یا اپنے کچھار میں رہتے ہیں یعنی ضروریاتِ زندگی کے لیے جن جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ ہر طرح کے جانور اور ہر طرح کے حیوان کو اس کی ضروری راہنمائی دے دی گئی ہے اور اس کے اسباب مہیا کر دئیے گئے ہیں اور انھیں ضروریات کو ان کے لیے مقاصدِ زندگی بنادیا گیا ہے۔ اس لیے انھیں مقاصد کے حصول اور انھیں کی بجا آوری میں وہ پوری زندگی صرف کردیتے ہیں۔ انسان کو اللہ نے انسانی شرف دے کر ان سے مختلف ہدایت عطا فرمائی تھی اسے بتایا گیا تھا کہ تیرے اندر ایک تو حیوانی زندگی ہے اس کے لیے تو تم باقی حیوانوں کی طرح اپنے حواس سے کام لے کر انھیں حاصل کرنے کی کوشش کرو گے لیکن ساتھ ساتھ تمہیں چونکہ عقل بھی دی گئی ہے اس لیے عقل کے ذریعے تم ان کے معیار کو یقینا بہتر بنائو گے۔ وہ اگر کچا گوشت ‘ کچی سبزی ‘ کچا پھل اور گھاس پھونس کھا کر گزارا کریں گے تو تم انھیں چیزوں کو بہتر شکل و صورت دے کر اور حسب حال بنا کر اپنی ضرورتیں پوری کرنے کی کوشش کرو گے۔ وہ اگر کسی بل کو اپنی رہائش گاہ بنائیں گے یا کسی بھٹ میں گزارا کریں گے یا تنکوں کا آشیانہ بنالیں گے تو تم اپنے رہنے کے لیے بڑی بڑی بلڈنگیں اٹھائو گے۔ انھیں اگر پر دئیے گئے ہیں اڑنے کے لیے اور تیرنے کے لیے تو تم اپنی عقل کی مدد سے ان سے بہتر اڑ بھی سکو گے اور تیر بھی سکو گے۔ انھیں اگر دوڑنے کی ہمت تم سے زیادہ عطا کی گئی ہے تو تم ان سے تیز رفتار گاڑیاں ایجاد کرو گے لیکن یہ ساری وہی حیوانی ضرورتیں ہیں جنھیں حیوان اپنی سطح پر اپنے احوال کے مطابق بروئے کار لاتا ہے اور انسان انھیں بہتر سے بہتر صورت میں وجود دیتا ہے لیکن بنیادی خصوصیات میں دونوں میں کوئی فرق نہیں اب اگر انھیں ضروریات کا حصول حیوانوں کی طرح انسان کی پوری زندگی پر غالب آجائے وہ یہ سمجھے کہ میں علم اس لیے حاصل کررہا ہوں تاکہ میں نوکری یا کاروبار کروں اور یہ نوکری یا کاروبار اس لیے کروں گا تاکہ اپنی حیوانی ضرورتوں کو بہتر سے بہتر طریقے سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاؤں میرے پاس ایک خوبصورت گاڑی ‘ خوبصورت کوٹھی اور اشیائے خوردو نوش کی بہتات اور دولت کی ریل پیل رہنی چاہیے تاکہ مجھے زندگی کی کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ تو سوال یہ ہے کہ آپ اس کو معیار کے اعتبار سے جو بھی نام دے دیں حقیقت میں تو یہ وہی چیزیں ہیں جو حیوانی ضرورتوں سے تعلق رکھتی ہیں اگر انسان کی ساری زندگی کا یہی چیزیں احاطہ کرلیتی ہیں تو یہ اس کی حیوانی زندگی کی معراج ہوئی انسانی زندگی کہاں ہوئی ؟ ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان ماشاء اللہ بہت اچھے حیوان بن گئے ہیں کوئی آدمی جتنا زیادہ پڑھا لکھا ہے کہہ لیجیے کہ وہ اتنا اچھا حیوان ہے۔ اکبر الہٰ آبادی مرحوم نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ؎ کیا کہوں احباب کیا کار نمایاں کر گئے بی۔ اے کیا نوکر ہوئے پنشن ملی پھر مر گئے ایک دفعہ ایک مغربی دانشورنے ایک مشرقی مفکر سے بڑے فخر کے ساتھ اپنی ایجادات اور کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو ہم نے ایسے ایسے جہاز بنائے ہیں جو ایک گھنٹے میں ہزاروں میل اڑ سکتے ہیں، ہم نے ایسی کاریں ایجاد کی ہیں جو ایک گھنٹے میں کئی سو میل سفر کرسکتی ہیں، ہم نے ایسے کیمرے ایجاد کیے ہیں جو سمندر کے نیچے تک کی تصویریں لے سکتے ہیں، اپنی محیر العقول کامیابیوں کا ذکر کرتا رہا اور مشرقی مفکر خاموشی سے سنتا رہا بالآخر اس مفکر نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو کہ تم نے پرندوں سے بہتر اڑنا سیکھ لیا ‘ تم نے درندوں سے تیز دوڑنا سیکھ لیا ‘ تم مچھلیوں سے بہتر پانی میں تیرنے لگے ہو ‘ لیکن افسوس تمہیں انسانوں کی طرح چلنا نہ آیا۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ ان لوگوں کی زندگی کا اصل حادثہ یہ ہے کہ اللہ نے ان کو جتنی خصوصیات عطا فرمائی ہیں ان سے انھوں سے صرف یہ کام لیا ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ انعام کی طرح ہوگئے ہیں یعنی جو زندگی کا رویہ دنیا بھر کے حیوانوں کا ہے وہی ان کا ہے۔ وہ ضروریاتِ زندگی کے حصول کے لیے پوری زندگی صرف کردیتے ہیں کیونکہ وہ اسی کو زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں چناچہ ان کا ہدف بھی اس سے مختلف نہیں۔ کسی ان پڑھ یا پڑھے لکھے سے بات کر کے دیکھ لیجیے وہ زندگی کی ضروریات حاصل کرنے کے لیے جس طریقے کو اپنا چکا ہے اس سے ہٹ کر کسی اور کام کے لیے اس کے پاس وقت نہیں حیوان تو پھر پیٹ بھر کر آرام سے سوتا ہے اور ایک آشیانہ بنا کر اسے دوسرے کی کبھی ہوس نہیں ہوتی لیکن انسان ایک مکان پر کبھی قانع نہیں ہوتا وہ ہر سال ایک نئی کوٹھی بنانا چاہتا ہے۔ اس کی ضرورتوں کے لیے ایک کارخانہ کافی نہیں وہ دس کارخانے لگا کر بھی کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔ بہتر سے بہتر گاڑی مل جاتی ہے تو تب بھی لمبی گاڑی کے حصول یا ماڈل بدلنے کے لیے بےچین رہتا ہے یعنی جو قناعت اور اطمینان حیوانوں کو میسر ہے انسان اس سے بھی تہی دامن ہے۔ البتہ جس طرح حیوان اپنی ضروریات کے لیے دوسروں کے نقصان کی کبھی پرواہ نہیں کرتا اگر اس کے پاس اپنا بھٹ نہیں تو اپنے سے کمزور جانور کے بھٹ پر قبضہ کرلیتا ہے ‘ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کسی چھوٹے جانور کی جان لے لیتا ہے۔ انسان اس معاملے میں بھی حیوان سے بھی آگے ہے کہ وہ تو کسی ایک بھٹ پر قبضہ کرتا ہے لیکن اسے آبادیاں بھی کھنڈر بنانا پڑیں تو دریغ نہیں ہوتا ‘ وہ تو پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ایک جانور کی جان لیتا ہے یہ تیل کے کنوئوں اور منڈیوں پر قبضہ کرنے کے لیے ملکوں کو تباہ کردیتا ہے اور کبھی اسے ملال نہیں ہوتا۔ اس لیے ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ جو دل دماغ اور حواس سے ٹھیک طرح سے کام نہیں لیتے یہ حیوانات جیسے نہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ ان کا ظلم کہیں نہ کہیں جا کر رک جاتا ہے یہ بستیاں اجاڑ کر بھی نہیں رکتے وہ کبھی فوجیں بنا کر ملکوں پر یلغار نہیں کرتے ان کے اپنے نوکیلے پنجے ان کی درندگی کے لیے کافی ہیں لیکن انسان کی ٹیکنالوجی انسانی خدمت کے لیے کم ‘ انسانی تباہی کے لیے زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ وجہ اس کی ظاہر ہے کہ انسانوں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ کیا قدرت نے ہمیں زندگی اور زندگی کی نعمتیں دے کر بےمقصد اس زمین پر بھیجا ہے ؟ اور اگر اس نے کوئی مقصد دیا ہے تو آخر وہ کیا ہے ؟ اس کے جاننے کا ذریعہ اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ صرف اللہ کے نبی ہیں ان پر ایمان لا کر اور ان کی راہنمائی کو قبول کر کے حقیقی زندگی کا شعور حاصل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ چونکہ مقصد زندگی سے بالکل بےبہرہ اور بیخبر ہیں اور اسی پر انھیں اصرار بھی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ اللہ نے تو ان کو دل اور حواس عطا فرمائے تھے تاکہ وہ اس کے صحیح استعمال سے اپنی آخرت بنالیں لیکن انھوں نے آنکھوں سے صرف وہ کچھ دیکھا جو ان کی خواہشات کے لیے ضروری تھا اور کانوں سے صرف وہ سنا جن سے انھیں لذت گناہ میں مدد مل سکتی ہے اور دل سے صرف وہ باتیں سمجھنے کی کوشش کی جن کا تعلق ان کی دنیا سے تھا تو جب کوئی فرد یا کوئی قوم اس طرح صرف دنیا تک اپنے آپ کو محدود رکھ کر آخرت سے لا تعلق ہوجاتی ہے تو قرآن کریم انھیں غافل قرار دیتا ہے اور یہ بھی خبر دیتا ہے کہ یہی لوگ ہیں جو اللہ کے قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں چونکہ اس کا قانون یہ ہے کہ ہماری عطا کردہ قوتوں سے کام لے کر جو حقیقی زندگی تک نہیں پہنچے گا ہم اس کو جہنم کا ایندھن بنادیں گے۔ چناچہ ان لوگوں نے بھی جب یہی جرم کیا تو اللہ نے اپنے قانون کے تحت جہنم ان کا مقدر بنادیا اور یہ آخر کار چونکہ جہنم میں جائیں گے اور اللہ کے ازلی اور ابدی علم کے مطابق ان کا جہنم میں جانا چونکہ پہلے سے اللہ کے علم میں ہے اس لیے فرما دیا کہ ہم نے بہت سے جنوں اور انسانوں کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے۔ لیکن اس کے بعد ان کی علامتیں بھی بیان فرما دیں تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ وہ اپنے ان کرتوتوں کے باعث جہنم میں جائیں گے نہ کہ ہمارے پیدا کرنے کی وجہ سے، کیونکہ ہم نے تو انھیں باقی انسانوں کی طرح یہ تمام صلاحیتیں دے کر پیدا کیا تھا وہ اگر چاہتے تو ان سے کام لے کر اپنے آپ کو جنت کا وارث بنا سکتے تھے۔ اگلی آیت کریمہ میں جس ذات سے بیخبر ی کے باعث لوگ جہنم کا ایندھن بنتے ہیں اس کے بارے میں ہدایات ارشاد فرمائی جا رہی ہیں۔
Top