Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 41
لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّ مِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ
لَهُمْ : ان کے لیے مِّنْ جَهَنَّمَ : جہنم کا مِهَادٌ : بچھونا وَّ : اور مِنْ : سے فَوْقِهِمْ : ان کے اوپر غَوَاشٍ : اوڑھنا وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم بدلہ دیتے ہیں الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
ان کے لیے جہنم ہی کا بچھونا اور اوپر سے اسی کا اوڑھنا ہوگا اور ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیں گے۔
لَھُمْ مِّنْ جَھَنَّمَ مِھَادٌ وَّ مِنْ فَوْقِھِمْ غَوَاشٍ ط وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ ۔ (الاعراف : 41) ” ان کے لیے جہنم ہی کا بچھونا اور اوپر سے اسی کا اوڑھنا ہوگا اور ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیں گے “۔ مھاد۔ غواش کا مفہوم ” مہاد “ کا معنی ہے بچھونا اور ” غواش “ غاشیہ کی جمع ہے جس کا معنی ہے ڈھانپ لینے والی چیز ‘ اس سے مراد ہے اوڑھنا۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے اوپر اور نیچے سے جہنم ہی اوڑھنا بچھونا ہوگی۔ کسی شخص کو نہایت اذیت دینا مقصود ہو تو اس کے لیے سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ اسے دہکتے انگاروں پر لٹا دیا جائے۔ آگ سے بڑا عذاب شاید ہی دنیا میں کوئی ہو۔ آدمی کے جسم کو آگ کی لپٹ بھی چھو جائے تو ناقابل برداشت ہوتی ہے چہ جائیکہ اسے آگ کے بستر پر لٹا دیا جائے جب تک اس کی کھال جل کر اور اس کی چربی پگھل کر اس کے کوئلوں کو نہیں بجھاتی اس کی اذیت میں کمی نہیں آسکتی لیکن ایسی اذیت کے بارے میں تصور کرنا بھی کس قدر تکلیف دہ ہے جس میں صرف آگ کا بسترہی نہ ہو بلکہ اس کے اوپر بھی آگ کا لحاف دے دیا جائے یعنی نیچے دہکتے انگارے بچھا دیئے جائیں اور اوپر آگ ہی سے اسے ڈھانپ دیا جائے۔ اس ہولناک عذاب کا تصور کرنا بھی انسانی احساس کے لیے بہت تکلیف دہ ہے چہ جائیکہ اسے برداشت کرنا۔ چناچہ یہاں اس عذاب کو ان مستکبرین کے لیے بیان کیا جا رہا ہے کہ قیامت کے دن یہ لوگ اس عذاب سے دوچار کیے جائیں گے۔ اے کاش ! آج دنیا میں اس عذاب سے بچنے کے لیے وہ کوئی کوشش کریں۔ اصلاح و تربیت کے دو موثر طریقے دنیا میں اصلاح اور تربیت کے لیے جتنے طریقے اختیار کیے گئے ہیں یا جتنے اسلوب آزمائے گئے ہیں ان میں سب سے موثر دو ہی طریقے ہیں ایک ہے ترغیب اور دوسرا ہے ترہیب یعنی کسی بھی آدمی کو اگر آپ آمادہ عمل کرنا چاہیں تو اسے یا تو اس کے عمل کے نتیجے کے طور پر کسی بہت بڑے انعام کی ترغیب دیجئے اور یا پھر اسے کسی بہت برے انجام سے ڈرایئے یہی دو طریقے ہیں جس سے کسی بھی شخص کو آمادہ حرکت یا آمادہ عمل کیا جاسکتا ہے۔ آپ نے بارہا تجربہ کیا ہوگا کہ ایک شخص جو کوئی پابندی قبول کرنے یا کسی طرح کی زحمت اٹھانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتا لیکن اگر آپ اسے یقین دلا دیجئے کہ اس کے نتیجے میں تمہیں بہت بڑا کوئی منصب مل سکتا ہے یا کوئی مالی منفعت حاصل ہوسکتی ہے تو آپ کو یہ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ وہ شخص سرتاپا عمل بن جائے گا۔ مثال کے طور پر ایک شخص اپنے گھر میں لحاف میں لپٹا پڑا ہے شدید سردی کا موسم اور باہر ہلکی پھلکی پھوار اور یخ بستہ رات۔ اس کی بیوی کو اچانک یاد آتا ہے کہ صحن میں کچھ چیزیں پڑی رہ گئی ہیں نہ اٹھائی گئیں تو بارش سے خراب ہوجائیں گی وہ بچے کو لیے لیٹی ہوئی اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ میں اس حال میں اٹھ کر اگر باہر نکلوں گی تو اندیشہ ہے کہیں بیمار نہ پڑجاؤں۔ آپ ماشاء اللہ صحت مند ہیں باہر جائیں اور صحن میں جو چیزیں پڑی ہیں وہ اٹھا لائیں وہ کہتا ہے بھاڑ میں جائیں یہ چیزیں میں ان کی خاطر اپنی صحت کو دائو پر نہیں لگا سکتا۔ اس نے ہرچند اصرار کیا لیکن یہ شخص اپنے لحاف سے نکلنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اچانک باہر دروازے پر دستک ہوئی اس نے وہیں سے پکار کر پوچھا کون ہے جواب ملا کہ یہاں سے چار میل کے فاصلے پر گیسٹ ہائوس سے میں آیا ہوں وہاں تیرے افسر اعلیٰ تشریف لائے ہیں انھوں نے اسی وقت تمہیں طلب کیا ہے اگر تم نے تساہل کیا تو نوکری سے نکال دیئے جاؤ گے یہ شخص جو لحاف سے نکلنے پر مستعد نہیں تھا وہ فوراً لحاف سے نکلا گرم کپڑے پہنے ‘ دُھسہ اوڑھا ‘ چھتری لی اور اس کے ساتھ ہوگیا۔ چار میل گیا اور چار میل واپس آیا لیکن سردی نے نہ جانے سے اسے روکا اور نہ آنے سے جبکہ یہ شخص اپنے صحن تک جانے کے لیے تیار نہیں تھا دونوں طرح کی صورتحال میں فرق یہ ہے کہ اس کے صحن میں جو چیزیں پڑی خراب ہو رہی تھیں وہ اتنی قیمتی نہیں تھیں جسے یہ آسانی سے بنا نہ سکتا ہو اس لیے ان چیزوں کی خرابی کا ڈر اس کو ہلانے میں کامیاب نہ ہوسکا لیکن جب اس کے سامنے ایک ایسا خوف آیا یعنی نوکری سے نکالے جانے کا تو فوراً اس کی قوت متخیلہ نے پوری صورتحال کو اس کے سامنے متشکل کردیا۔ اس نے تصور میں دیکھا کہ اگر میری نوکری جاتی رہی تو گھر کا چولہا بجھ جائے گا ‘ بچے سکول کی فیس نہیں دے سکیں گے ‘ کرائے کا مکان چھن جائے گا ‘ ہمارا سامان فٹ پاتھ پر پڑا ہوگا ‘ زندگی موت سے بدتر ہوجائے گی۔ اس خوفناک انجام نے اس کو ہلا کے رکھ دیا اور وہ سردی کا مقابلہ کرنے پر تیار ہوگیا۔ اسی طرح آپ دیکھتے ہیں کہ غلامی کے دنوں میں لوگوں نے مالی فوائد کی خاطر ایمان بیچے ‘ عہدہ و منصب کی خاطر اسلامی غیرت کو تیاگ دیا ‘ جاگیریں حاصل کرنے کے لیے اپنی قوم کے افراد جنگوں میں جھونک دیئے ‘ محض فاتحین کا قرب حاصل کرنے کے لیے آزادی کے بدلے میں غلامی لے لی۔ اس سے یہ بات سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ ترغیب اور ترہیب یہ دو ایسے محرکات ہیں جو انسان کو غلط یا صحیح کرنے پر آمادہ کردیتے ہیں۔ قرآن کریم کا اسلوب بھی یہ ہے کہ اس نے جہاں پاکیزہ فکر اور طہارت قلب کے ذریعے انسان کو بدلا وہیں اسے ان دونوں فطری محرکات سے بھی آمادہ عمل کرنے کی کوشش کی چناچہ پہلے جہنم کے عذاب کا ذکر فرما کر ترہیبی محرک کا ذکر کیا اور اب اگلی آیتوں میں جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر فرمایا جا رہا ہے تاکہ انسان کو اندازہ ہو سکے کہ اگر میں ایمانی زندگی اختیار کروں تو مجھے دنیا اور آخرت میں ایک آسودہ اور کامیاب زندگی نصیب ہوسکتی ہے
Top