Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 60
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار مِنْ : سے قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنَّا : بیشک ہم لَنَرٰكَ : البتہ تجھے دیکھتے ہیں فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
۔ اس کی قوم کے سرداروں نے کہا ! ہم تو تجھے صریح گمراہی میں دیکھ رہے ہیں۔
ارشاد ہوتا ہے : قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِہٖٓ اِنَّا لَنَرٰکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ۔ قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ ضَلٰلَۃٌ وَّ لٰکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنْصَحُ لَکُمْ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ۔ اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جآئَکُمْ ذِکْرٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْکُمْ لِیُنْذِرَکُمْ وَ لِتَتَّقُوْا وَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔ (الاعراف : 63 تا 60) ” اس کی قوم کے سرداروں نے کہا ! ہم تو تجھے صریح گمراہی میں دیکھ رہے ہیں۔ نوح نے کہا : اے برادرانِ قوم ! میں کسی گمراہی میں نہیں پڑا ہوں۔ بلکہ میں رب العالمین کا رسول ہوں ‘ تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا رہا ہوں ‘ تمہارا خیر خواہ ہوں اور مجھے اللہ کی طرف سے وہ کچھ معلوم ہے ‘ جو تمہیں معلوم نہیں ہے۔ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعے سے تمہارے رب کی یاد دہانی آئی ‘ تاکہ تمہیں خبردار کرے اور تم غلط روی سے بچ جاؤ اور تم پر رحم کیا جائے ؟ “۔ حضرت نوح اور آپ کی قوم کے درمیان مکالمہ اور معارضہ، مشرکینِ مکہ کے لیے آئینہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) سے معارضہ کیا اور زبان کے تیر و نشتر سے جس طرح انھیں گھائل کرنے کی کوشش کی اور اس کے جواب میں جس صبر ‘ استقامت اور بالغ نظری کا حضرت نوح (علیہ السلام) نے ثبوت دیا یہ آنحضرت ﷺ اور مشرکین کے درمیان چلنے والی چپقلش کا ایک آئینہ ہے جو مشرکین مکہ کے سامنے رکھا جا رہا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے سب سے پہلی وہی بات کہی جو ہمیشہ گمراہ قومیں اپنے پیغمبروں کی دعوت میں کہتی رہی ہیں۔ انھوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے کہا کہ اے نوح ہم تو تمہیں صریح گمراہی میں دیکھ رہے ہیں یعنی تو ایک الجھا ہوا آدمی ہے خود گمراہ ہے گمراہی کی باتیں کر رہا ہے ہم تجھے اللہ کا رسول کیسے مان لیں ؟ اس میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اللہ کا ہر نبی اور رسول ذاتی طور اطوار میں نہایت شائستہ اور معاملات میں نہایت دل آویز ہوتا ہے اس کو صریح گمراہی میں قرار دینا یہ ایک عجیب سی بات ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ بگڑی ہوئی قومیں اپنے پیغمبروں کو اسی طرح کے طعنوں سے ہمیشہ زخمی کرتی رہی ہیں وجہ اس کی یہ ہے کہ چند باتیں تھیں جو انھیں سمجھ نہیں آتی تھیں یا وہ انھیں سمجھنا نہیں چاہتے تھے۔ پہلی یہ بات کہ ان کے نزدیک سچائی اور حقیقت کا سب سے بڑا معیار ان کے آبائو اجداد تھے جو بات انھیں اپنے آبائو اجداد سے ورثے میں ملی تھی وہ چاہے اپنے اندر عقل رکھتی ہو نہ علم وہ ان کے نزدیک سو فیصد صحیح تھی وہ کبھی یہ بات سوچنے کو بھی تیار نہیں تھے کہ آبائو اجداد سے بھی غلطی ہوسکتی ہے اس لیے جب حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم اور ان کے آبائو اجداد کے مشرکانہ عقائد پر تنقید فرماتے تھے تو وہ یہ کہتے تھے کہ تم صرف ہماری مخالفت ہی نہیں کر رہے ہو بلکہ تم تو ہمارے اور اپنے آبائو اجداد کو بھی گمراہ قرار دے رہے ہو وہ تو گمراہ نہیں ہوسکتے البتہ تم گمراہ ہو جو انھیں گمراہ قرار دیتے ہو اور دوسری یہ بات جو وہ سمجھنا نہیں چاہتے تھے وہ یہ کہ جب حضرت نوح (علیہ السلام) انھیں توحید کی دعوت دیتے اور یہ بتاتے کہ پوری کائنات کا نظام چلانے والا صرف ایک خداوند ذوالجلال ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں تو وہ حیران ہو کر یہ کہتے تھے کہ اتنی بڑی کائنات کا نظام ایک خدا کیسے چلا سکتا ہے ؟ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی حیثیت ایک بادشاہ کی مانند تھی جس طرح بادشاہ اپنی مملکت کا نظام تنہا نہیں چلاتا بلکہ اس نے اپنے اختیارات میں بہت سارے اپنے عماّل کو شریک کیا ہواہوتا ہے اور انہی کی مدد سے وہ مملکت کا نظام چلاتا ہے اس لیے لوگ اپنی ضرورتیں بادشاہ کے پاس نہیں بلکہ اس کے عماّل کے پاس لے کر جاتے ہیں۔ یہی حال اللہ تعالیٰ کا بھی ہے وہ یقینا کائنات کا خالق ومالک ہے لیکن کائنات کا نظام چلانے اور لوگوں کی ضروریات بہم پہنچانے میں وہ تنہا نہیں بلکہ وہ سارے شرکاء جو مشرکین مکہ نے بنا رکھے تھے وہ اس کے ساتھ شریک ہیں اس لیے انسانوں کو اپنی ضرورتوں کے لیے انہی شرکاء سے رجوع کرنا چاہیے۔ اب اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں تو یہ سراسر عقل کے خلاف بات ہے ایسا ہونا کسی طرح بھی ممکن نہیں اور تیسری جو بات ان کو سمجھ نہیں آتی تھی وہ یہ کہ جب پیغمبر ان کو یہ کہتا کہ اگر تم نے میری دعوت کو قبول نہ کیا تو دنیا میں بھی تم پر عذاب آسکتا ہے اور قیامت کے دن بھی تم اللہ کے عذاب میں گرفتار کیے جاؤ گے تو وہ حیران ہو کر یہ کہتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہے اور تم سے راضی ہے تو پھر ہونا یہ چاہیے خوشحالی اور مال و دولت تمہارے گھر میں ہو لیکن ہم تمہیں اور تمہارے متبعین کو جس بدحالی میں مبتلا دیکھ رہے ہیں اس سے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے ناراض ہے اور ہم سے راضی ہے تو اللہ تعالیٰ کبھی ان کو سزا تو نہیں دے سکتا جن سے وہ راضی ہے اس لحاظ سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تم صریح گمراہی میں ہو۔ تم بلاوجہ اپنے آپ کو ہدایت یافتہ سمجھتے ہو۔ آبائو و اجداد کے رویے سے تم انحراف کرچکے ہو اور محض نادانی سے تم ایک الٰہ کے قائل ہوچکے ہو۔ حالانکہ انسانی ضرورتیں پوری کرنا ایک الٰہ کے بس کی بات نہیں اس لیے ہم یہ سمجھتے ہو کہ تم صاف اور صریح گمراہی میں مبتلا ہوچکے ہو۔ ان کی ان تکلیف دہ باتوں کے جواب میں اندازہ فرمایئے حضرت نوح (علیہ السلام) کس قدر تحمل اور بردباری کا ثبوت دے رہے ہیں۔ بجائے طیش میں آنے کے نہایت اطمینان سے فرماتے ہیں کہ اے برادرانِ قوم میرے ساتھ تو کوئی گمراہی کی بات نہیں۔ تم نے میرے اندر کون سی گمراہی کی بات دیکھی ہے البتہ جو باتیں تم کرتے ہو وہ ضرور گمراہی کی ہیں۔ میں گمراہی کی بات کیسے کرسکتا ہوں کیونکہ میں تو رب العالمین کا فرستادہ ہوں جس طرح وہ غلطیوں سے پاک ہے اس طرح اس کا فرستادہ بھی اس کا پیغام پہنچاتا ہوا اور اس کے دین کی دعوت دیتا ہوا کبھی غلطی کا ارتکاب نہیں کرتا۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں تم بیشک میرا سینہ چھلنی کر ڈالو میں اس سے رکنے والا نہیں اس لیے کہ میں اپنی بات نہیں کہتا میں تو رب العالمین کا پیغام تم تک پہنچا رہا ہوں۔ تم میرے ساتھ جو سلوک کر رہے ہو اس کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے کہ میں پلٹ کر تمہاری شکل نہ دیکھوں اور تمہیں حالات کے حوالے کر کے یہاں سے ہجرت کر جاؤں لیکن میں ایسا نہیں کرسکتا اس لیے کہ مجھے بہرصورت اللہ کے پیغامات تم تک پہنچانے ہیں تم اگر مجھے گالیاں بھی دو گے ‘ اذیتیں بھی پہنچائو گے میں اپنی خیر خواہی میں کبھی کمی نہیں کروں گا کیونکہ مجھے رب العالمین کی جانب سے ایک ایسا علم دیا گیا ہوں جس سے تم واقف نہیں اور میں ان باتوں کو جانتا ہوں جن کی تمہیں ہوا تک نہیں لگی۔ میں چونکہ اللہ کا نمائندہ ہوں اس کے دیئے ہوئے علم کا حامل ہوں مجھے اپنی ذمہ داری کا شدید احساس ہے میں تمہاری خیر خواہی میں ہر اذیت برداشت کرنے کو تیار ہوں تو تم ہی سوچو اس میں گمراہی کی کون سی بات ہے۔ تمہیں اگر کوئی میری بات سمجھ نہیں آرہی تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ بات گمراہی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم میری حیثیت کو سمجھنے میں کوتاہی کر رہے ہو۔ میں تمہاری طرح آبائو اجداد کا پیروکار نہیں بلکہ اللہ کے دیئے ہوئے علم کا پیروکار ہوں مجھ پر تمہاری طرح نفسانیت کی حکومت نہیں بلکہ میں معصوم پیدا ہوا ہوں۔ تمہاری سوچ کی طرح میری سوچ ادھوری اور ناپختہ نہیں کیونکہ میرے علم کا رشتہ اللہ کے علم سے استوار ہے۔ تم میری اصل حیثیت کو پہچانو اور میری پیروی کر کے اپنی عاقبت تباہ ہونے سے بچا لو۔ تمہیں اس بات پر تعجب ہو رہا ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے جو نصیحت آئی ہے وہ تمہی میں سے ایک آدمی کے ذریعے کیوں آئی ہے اس میں غالباً تمہیں دو اشتباہ لاحق ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ نصیحت اور نبوت ایک آدمی پر کیوں اتری اسے تو کسی فرشتے پر اترنا چاہیے تھا کیونکہ ہر دور میں گمراہ قوموں میں یہ گمراہی موجود رہی ہے کہ وہ نبوت اور بشریت میں تضاد سمجھتے رہے ہیں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ نبی بشر نہیں ہوسکتا اور بشر نبی نہیں ہوسکتا اور یہی حال قوم نوح کا بھی تھا اس لیے حضرت نوح (علیہ السلام) انھیں متنبہ کر رہے ہیں کہ یہ نہایت حماقت کی بات ہے۔ انسانوں کی اگر اصلاح مقصود ہے تو کوئی انسان ہی انسانوں کی اصلاح کرسکتا ہے۔ اگر کسی فرشتے یا کسی جن کو نبی بنا کر بھیج دیا جاتا تو نہ وہ نظر آتا ‘ نہ اس کا مزاج انسانوں سے ملتا ‘ نہ اس کی ضروریات انسانوں جیسی ہوتیں ‘ نہ وہ انسانوں کی طرح سوچتا ‘ اس کے احساسات اور انفعالات بالکل انسانوں سے الگ ہوتے تو انسان آخر اس سے کیسے اصلاح پذیر ہوسکتے تھے اور مزید یہ بات بھی کہ نبی کو یقینا کسی اعلیٰ ترین مخلوق میں سے ہونا چاہیے تھا اور یہ بات مسلمہ ہے کہ سب سے اعلیٰ ترین مخلوق وہ حضرت انسان ہے جس کو فرشتوں نے سجدہ کیا البتہ غلط فہمی کی بنیاد یہ ہے کہ ایک بگڑا ہوا آدمی انسانیت کی حقیقت کو نہیں پہچانتا وہ اپنے آپ کو جب انسان دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ انسان ایسا ہی ہوتا ہے حالانکہ بشر جو اس تیرہ خاکداں میں پڑا یہ اس کی اپنی فروتنی ہے وگرنہ قندیلِ عرش میں بھی اسی کے جلوے کی روشنی ہے قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ قوم نوح نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
Top