Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 8
وَ الْوَزْنُ یَوْمَئِذِ اِ۟لْحَقُّ١ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَالْوَزْنُ : اور وزن يَوْمَئِذِ : اس دن الْحَقُّ : حق فَمَنْ : تو جس ثَقُلَتْ : بھاری ہوئے مَوَازِيْنُهٗ : میزان (نیکیوں کے وزن فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
اس دن وزن دار صرف حق ہوگا تو جن کے پلڑے بھاری ٹھہریں گے وہی لوگ فلاح پانے والے بنیں گے
ارشاد فرمایا : وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذِ نِ الْحَقُّ ج فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ وَمَنْ خَفَّتْ مِوَازِیْنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ بِمَا کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ ۔ (الاعراف : 8، 9) ” اس دن وزن دار صرف حق ہوگا تو جن کے پلڑے بھاری ٹھہریں گے وہی لوگ فلاح پانے والے بنیں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوئے وہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالاکیون کہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتائو کرتے رہے تھے “۔ بعض بزرگوں نے اس کے پہلے جملے کا ترجمہ اس طرح کیا ہے ” اور تول اس دن ٹھیک ہوگی “ لیکن دونوں صورتوں میں مطلب اور مفہوم میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس دن خدا کی میزان عدل میں وزن اور حق دونوں ایک دوسرے کے ہم معنی ہوں گے حق کے سوا کوئی چیز وہاں وزنی نہ ہوگی اور وزن کے سوا کوئی چیز حق نہ ہوگی جس کے ساتھ جتنا حق ہوگا اتنا ہی وہ باوزن ہوگا اور فیصلہ جو کچھ بھی ہوگا وزن کے لحاظ سے ہوگا کسی دوسری چیز کا وزن ذرہ برابر لحاظ نہ کیا جائے گا۔ باطل کی پوری زندگی خواہ وہ دنیا میں کتنی ہی طویل و عریض رہی ہو اور کتنے ہی بظاہر شاندار کارنامے اس کی پشت پر ہوں اس ترازو میں سراسر بےوزن قرار پائیں گے۔ باطل پرست جب اس میزان میں تولے جائیں گے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ دنیا میں جو کچھ وہ مدت العمر کرتے رہے وہ سب ایک پرکاہ کے برابر بھی وزن نہیں رکھتا یہی بات ہے جو سورة کہف کی آیات 103 تا 105 میں فرمائی گئی ہے : ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَ لِقَآئِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا (الکہف : 103-105) ” ہم تمہیں بتائیں گے کہ اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے کون ہوں گے ؟ وہ جن کی ساری سرگرمیاں طلب دنیا میں برباد ہوئیں اور وہ اس خوش گمانی میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں ‘ وہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات اور ملاقات کا انکار کیا تو ان کے اعمال ڈھے گئے ‘ تو ہم قیامت کے دن ان کے لیے کوئی وزن نہیں قائم کریں گے “۔ وزن کی وضاحت، احادیث کے شواہد بعض لوگوں کو آج بھی اور مشرکینِ مکہ کو خاص طور پر یہ شبہ ہوتا تھا کہ چیزوں کا وزن تو سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن ایمان و کفر کا وزن اور اچھے برے اعمال کا وزن آخر اس کو کس طرح سمجھا جاسکتا ہے تو اس آیت میں ایک بات تو یہ صاف کردی گئی کہ اس دن ایمان اور نیک اعمال کا وزن تو ہوگا اور یہ باقاعدہ اپنا تول تلیں گی لیکن جہاں تک کفر اور برائیوں کا تعلق ہے وہ اپنے اندر کوئی وزن نہیں رکھیں گی۔ چناچہ احادیث سے اور قرآن کریم سے بھی ان دونوں آیتوں کی وضاحت ملتی ہے اور جہاں تک آج کے دور کا تعلق ہے آج تو بہت ساری ایسی چیزیں ایجاد ہوچکی ہیں جو ایسی چیزوں کو تول رہی ہیں جن کو ایک زمانہ پہلے تک تولنے کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ گزشتہ زمانے میں کون تصور کرسکتا تھا کہ ہوا بھی تولی جاسکتی ہے ‘ برقی رو تولی جاسکتی ہے ‘ سردی اور گرمی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ‘ ان کے الگ الگ میٹر تیار ہوچکے ہیں ‘ باقاعدہ ان کو ترازو میں تولا جاتا ہے۔ ہمیں بخار ہوتا ہے تو منہ میں میٹر رکھ کر بتادیا جاتا ہے کہ کس درجے کا بخار ہے۔ گاڑیوں والے جگہ جگہ اپنی گاڑیوں میں پائونڈوں کے حساب سے ہوا بھرواتے ہیں۔ روزانہ محکمہ موسمیات والے ہمیں موسم کا ٹمپریچر تول تول کر بتاتے ہیں اس لیے آج یہ باتیں سمجھنا ہمارے لیے مشکل نہیں رہا کہ قیامت کے دن اعمال کیسے تلیں گے۔ آج تو ہمارے لیے یہ بات سمجھنا بھی کوئی مشکل نہیں رہا کہ برسوں پہلے دنیا سے گئے ہوئے لوگوں کو کس طرح ان کے اعمال سمیت دیکھا جاسکتا ہے کیونکہ کتنے بڑے بڑے مرحومین ہیں کہ جب ان کی برسیاں منائی جاتی ہیں تو ہر روز ٹیوی کی سکرین ہمیں ان کی آواز سناتی ہے ‘ ان کو چلتا پھرتا دکھایا جاتا ہے ‘ ان کو دفتر کے کام کرتے اور مختلف امور سرانجام دیتے ہوئے ہمارے سامنے لایا جاتا ہے اس لیے آج یہ تصور کرنا کوئی مشکل نہیں رہا کہ یہ کوئی ناممکن بات نہیں کہ کبھی کوئی دن ایسا آئے جب ہماری اس فضا کو ایک ٹیوی سکرین کی شکل دے دی جائے اور قیامت تک پیدا ہونے والی مخلوقات کو اس میں چلتا پھرتا دکھایا جائے اور ان کے اعمال کو مجسم شکل میں سب کے سامنے لا کر کھڑا کردیا جائے کیونکہ حدیث سے جس طرح یہ معلوم ہوتا ہے کہ اعمال کے وزن ہوں گے اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بہت سارے اعمال کو مجسم شکل میں سامنے لایا جائے گا۔ آنحضرت ﷺ کے ارشادات اس بات پر شاہد ہیں کہ برزخ اور محشر میں انسانی اعمال خاص خاص شکلوں اور صورتوں میں آئیں گے ‘ قبر میں انسان کے اعمال صالحہ ایک حسین صورت میں اس کے مونس بنیں گے اور برے اعمال سانپ بچھو بن کر لپٹیں گے ایک حدیث میں ہے کہ جس شخص نے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کی وہ مال ایک زہریلے سانپ کی شکل میں اس کی قبر میں پہنچ کر اس کو ڈسے گا اور کہے گا میں تیرا خزانہ ہوں اسی طرح معتبر احادیث میں ہے کہ میدان حشر میں انسان کے اعمال صالحہ اس کی سواری بن جائیں گے اور برے اعمال بوجھ بن کر اس کے سر پر لادے جائیں گے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ قرآن مجید کی سورة البقرہ اور سورة آل عمران میدان حشر میں دو گہرے بادلوں کی شکل میں آ کر ان لوگوں پر سایہ کریں گی جو ان سورتوں کے پڑھنے والے تھے۔ جہاں تک ایمان و عمل کے وزن دار ہونے کا تعلق ہے اس میں بعض احادیث میں صرف ایمان یا کلمہ طیبہ کے بھاری وزن کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ترمذی ‘ ابن ماجہ ‘ ابن حبان ‘ بیہقی اور حاکم نے حضرت عبد اللہ ابن عمر سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ محشر میں میری امت کا ایک آدمی ساری مخلوق کے سامنے لایا جائے گا اور اس کے ننانوے نامہ اعمال لائے جائیں گے اور ان میں سے ہر نامہ اعمال اتنا طویل ہوگا کہ جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے اور یہ سب نامہ اعمال برائیوں اور گناہوں سے لبریز ہوں گے۔ اس شخص سے پوچھا جائے گا کہ ان نامہ اعمال میں جو کچھ لکھا ہے وہ سب صحیح ہے یا نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں نے تم پر کوئی ظلم کیا ہے اور خلاف واقعہ کوئی بات لکھی ہے وہ اقرار کرے گا کہ اے میرے پروردگار جو کچھ لکھا ہے سب صحیح ہے اور دل میں گھبرائے گا کہ اب میری نجات کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔ اس وقت حق تعالیٰ فرمائیں گے آج کسی پر ظلم نہیں ہوگا ان تمام گناہوں کے مقابلے میں تمہاری ایک نیکی کا پر چہ بھی ہمارے پاس موجود ہے جس میں تمہارا کلمہ شہادت لکھا ہوا ہے۔ وہ عرض کرے گا کہ اے پروردگار اتنے بڑے سیاہ نامہ اعمال کے مقابلے میں یہ چھوٹا سا پر چہ کیا وزن رکھے گا اس وقت ارشاد ہوگا کہ تم پر ظلم نہیں ہوگا اور ایک پلہ میں وہ سارے گناہوں سے بھرے ہوئے نامہ اعمال رکھے جائیں گے اور دوسرے میں یہ کلمہ ایمان کا پر چہ رکھا جائے گا اور اس کلمہ کا پلہ بھاری ہوجائے گا اور سارے گناہوں کا پلہ ہلکا ہوجائے گا اس واقعہ کو بیان کر کے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز بھاری نہیں ہوسکتی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر کی زندگی کے کروڑوں اعمال میں جو چاہے اپنے اندر کیسی بھی شناعت رکھتے ہوں ایک کلمہ ایمان ان سب پر بھاری ہوجائے گا لیکن جہاں تک اعمال کا تعلق ہے ان کا الگ وزن ہوگا جس کی نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگا وہ نجات پا جائے گا اور جس کے گناہوں کا پلہ بھاری ہوگا وہ عذاب کا شکار ہوگا۔ یہی بات قرآن کریم کی ان آیات میں کہی گئی ہے۔ وَنَضَعُ الْمَوَزِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَّ اِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِھَا وَ کَفٰی بِنَا حَاسِبِیْنَ 5 ط ’ ’ ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو قائم کریں گے اس لیے کسی شخص پر ادنیٰ ظلم نہیں ہوگا جو بھلائی یا برائی ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی کسی نے کی ہو وہ سب میزان عمل میں رکھی جائے گی اور ہم حساب کے لیے کافی ہیں “۔ اور سورة قارعہ میں ہے : فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَھُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃ وَ اَمَّا مَنْ خَفََّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُمُّہٗ ھَاوِیَۃ ” جس کا نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگا وہ عمدہ عیش میں رہے گا اور جس کا پلہ نیکی کا ہلکا ہوگا اس کا مقام دوزخ ہوگا “۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس ( رض) نے ان آیات کی تفسیر میں فرمایا کہ جس مومن کی نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگا وہ اپنے اعمال کے ساتھ جنت میں ہوگا اور جس کا پلہ گناہوں کا بھاری ہوگا وہ اپنے اعمال کے ساتھ جہنم میں بھیج دیا جائے گا۔ وزنِ اعمال کے سلسلے میں مندرجہ ذیل احادیث کو غور سے دیکھ لینا چاہیے۔ بخاری و مسلم میں بروایت ابوہریرہ ( رض) یہ حدیث منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز بعض موٹے فربہ آدمی آئیں گے جن کا وزن اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگا اور اس کی شہادت میں آپ ﷺ نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی : فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا ط ” یعنی قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قرار نہ دیں گے۔ (مظہری) اور حضرت عبد اللہ ابن مسعود ( رض) کے مناقب میں یہ حدیث آئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ان کی ٹانگیں ظاہر میں کتنی پتلی ہیں لیکن قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ قیامت کے میزان ِ عدل میں ان کا وزن احد پہاڑ سے بھی زیادہ ہوگا۔ اور حضرت ابوہریرہ ( رض) کی وہ حدیث جس پر امام بخاری نے اپنی کتاب کو ختم کیا ہے اس میں یہ ہے کہ دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے ہیں مگر میزان عمل میں بہت بھاری ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ہیں ‘ اور وہ کلمے یہ ہیں : سُبْحَانَ ﷲِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْم حضرت عبد اللہ ابن عمر ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ سبحان اللہ کہنے سے میزان عمل کا آدھا پلہ بھر جاتا ہے اور الحمد اللہ سے باقی آدھا پورا ہوجاتا ہے۔ ابو دائود ‘ ترمذی ‘ ابن حبان نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابوالدردا ( رض) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میزانِ عمل میں حسن خلق کے برابر کوئی عمل وزنی نہیں ہوگا۔ حضرت ابوذر غفاری ( رض) سے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں ایسے دو کام بتاتا ہوں جن پر عمل کرنا انسان کے لیے کچھ بھاری نہیں اور میزان عمل میں وہ سب سے زیادہ بھاری ہوں گے ایک حسن خلق دوسرے زیادہ خاموش رہنا یعنی بلا ضرورت کلام نہ کرنا۔ امام احمد ( رح) نے کتاب الزہد بروایت حضرت حازم ( رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک مرتبہ جبرئیل امین تشریف لائے تو وہاں کوئی شخص خوف خدا تعالیٰ سے رو رہا تھا تو جبرئیل امین نے فرمایا کہ انسان کے تمام اعمال کا تو وزن ہوگا مگر خدا و آخرت کے خوف سے رونا ایسا عمل ہے جس کو تولا نہ جائے گا بلکہ ایک آنسو بھی جہنم کی بڑی سے بڑی آگ کو بجھا دے گا۔ (مظہری) ایک حدیث میں ہے کہ میدان حشر میں ایک شخص حاضر ہوگا جب اس کا نامہ اعمال سامنے آئے گا تو وہ اپنے نیک اعمال کو بہت کم پا کر گھبرائے گا کہ اچانک ایک چیز بادل کی طرح اٹھ کر آئے گی اور اس کے نیک اعمال کے پلے میں گرجائے گی اور اس کو بتلایا جائے گا کہ یہ تیرے اس عمل کا ثمرہ ہے جو تو دنیا میں لوگوں کو دین کے احکام و مسائل بتلاتا اور سکھاتا تھا اور یہ تیری تعلیم کا سلسلہ آگے چلا تو جس جس شخص نے اس پر عمل کیا ان سب کے عمل میں تیرا حصہ بھی لگایا گیا۔ (مظہری عن ابن المبارک) طبرانی نے بروایت ابن عباس ( رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جنازہ کے ساتھ قبرستان تک جائے اس کی میزان عمل میں دو قیراط رکھ دی جائیں گی اور دوسری روایت میں ہے کہ اس قیراط کا وزن احد پہاڑ کے برابر ہوگا۔ طبرانی نے بروایت جابر ( رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ انسان کی میزان عمل میں سب سے پہلے جو عمل رکھا جائے گا وہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے اور ان کی ضروریات پورا کرنے کا نیک عمل ہے۔ امام ذہبی ( رح) نے حضرت عمران بن حصین ( رض) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن علماء کی روشنائی جس سے انھوں نے علم دین اور احکام دین لکھے ہیں اور شہیدوں کے خون کو تولا جائے گا تو علماء کی روشنائی کا وزن شہیدوں کے خون کے وزن سے بڑھ جائے گا۔ اس طرح کی روایاتِ حدیث قیامت کے وزن اعمال کے سلسلہ میں بہت ہیں ‘ یہاں چند کو اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ ان سے خاص خاص اعمال کی فضیلت اور قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان تمام روایات حدیث سے وزن اعمال کی کیفیت مختلف معلوم ہوتی ہے بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل کرنے والے…انسان تولے جائیں گے وہ اپنے اپنے عمل کے اعتبار سے ہلکے بھاری ہوں گے اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نامہ اعمال تولے جائیں گے اور بعض سے ثآبت ہوتا ہے کہ خود اعمال مجسم ہوجائیں گے وہ تولے جائیں گے۔ امام تفسیر ابن کثیر ( رح) نے یہ سب روایات نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ وزن مختلف صورتوں سے کئی مرتبہ کیا جائے اور ظاہر ہے کہ پوری حقیقت ان معاملات کی اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں اور عمل کرنے کے لیے اس حقیقت کا جاننا ضروری بھی نہیں صرف اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے اعمال کا وزن ہوگا ‘ نیک اعمال کا پلہ ہلکا رہا تو عذاب کے مستحق ہوں گے۔ یہ دوسری بات ہے کہ حق تعالیٰ کسی کو خود اپنے فضل و کرم سے یا کسی نبی یا ولی کی شفاعت سے معاف فرما دیں اور عذاب سے نجات ہوجائے۔ اس کو اختصار سے یوں سمجھنا چاہیے کہ انسان کا کارنامہ زندگی دو پہلوئوں میں تقسیم ہوگا ‘ ایک مثبت پہلو اور دوسرا منفی پہلو۔ مثبت پہلو میں صرف حق کو جاننا اور ماننا اور حق کی پیروی میں حق ہی کی خاطر کام کرنا شمار ہوگا اور آخرت میں اگر کوئی چیز وزنی اور قیمتی ہوگی تو وہ بس یہی ہوگی۔ بخلاف اس کے حق سے غافل ہو کر یا حق سے منحرف ہو کر انسان جو کچھ بھی اپنی خواہشِ نفس یا دوسرے انسانوں اور شیطانوں کی پیروی کرتے ہوئے غیر حق کی راہ میں کرتا ہے وہ سب منفی پہلو میں جگہ پائے گا اور صرف یہی نہیں کہ یہ منفی پہلو بجائے خود بےقدر ہوگا بلکہ یہ آدمی کے مثبت پہلوئوں کی قدر بھی گھٹا دے گا۔ پس آخرت میں انسان کی فلاح و کامرانی کا تمام تر انحصار اس پر ہے کہ اس کے کارنامہ زندگی کا مثبت پہلو اس کے منفی پہلو پر غالب ہو اور نقصانات میں بہت کچھ دے دلا کر بھی اس کے حساب میں کچھ نہ کچھ بچا رہ جائے۔ رہا وہ شخص جس کی زندگی کا منفی پہلو اس کے تمام مثبت پہلوئوں کو دبا لے تو اس کا حال بالکل اس دیوالیہ تاجر کا سا ہوگا جس کی ساری پونجی خساروں کا بھگتان بھگتنے اور مطالبات ادا کرنے ہی میں کھپ جائے اور پھر بھی کچھ نہ کچھ مطالبات اس کے ذمہ باقی رہ جائیں۔ زیر تشریح رکوع کی پہلی آیت میں آنحضرت ﷺ کے فرض منصبی کے حوالے سے آپ کو تسلی بھی دی گئی اور مخالفین کی مخالفت کی حقیقت بھی واشگاف کی گئی اس کے بعد آپ کی دعوت اور آپ پر نازل کردہ کتاب کی اتباع کا براہ راست حکم دیا گیا اور ساتھ ہی نہایت تأسف سے فرمایا کہ تم بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو اور بہت کم یاددہانی حاصل کرتے ہو لیکن تمہیں اس کے انجام کی کچھ خبر نہیں ہے تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے نتیجے میں اللہ کا عذاب بھی آسکتا ہے اور پھر اس کی تائید میں مختلف قوموں کے حوالے دیئے اور پھر قیامت کی یاد دلائی اور تفصیل سے اس دن کی ہولناکی کا ذکر کیا اور اس دن کافروں کے ساتھ جو کچھ گزرنے والی ہے اس کا تذکرہ فرمایا اور یہ بات بھی یاد دلائی کہ اس دن تمہارا ایک ایک عمل حتیٰ کہ تمہاری نیتیں بھی حق و عدل کے ترازو میں تلیں گی اور تم اپنی آنکھوں سے اپنا انجام دیکھو گے۔ اب اس رکوع کی آخری آیت میں آخری بات فرمائی جا رہی ہے کہ تمہیں ہم جو پیغمبر کی دعوت اور قرآن کے اتباع کا حکم دے رہے ہیں تو اور کچھ نہیں تو اس حوالے سے ہی اس پر غور کرو کہ اللہ کے تم پر کیا کیا احسانات ہیں تو کیا اسکے احسانات کے شکر کے طور پر اسکے دین کا اتباع کرنا اور اس کے کھولے ہوئے صراط مستقیم پر چلنا تمہارے لیے ضروری نہیں چناچہ اس حوالے سے ارشاد فرمایا گیا :
Top