Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 94
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُوْنَ
وَ : اور مَآ اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے فِيْ : میں قَرْيَةٍ : کسی بستی مِّنْ نَّبِيٍّ : کوئی نبی اِلَّآ : مگر اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اَهْلَهَا : وہاں کے لوگ بِالْبَاْسَآءِ : سختی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَضَّرَّعُوْنَ : عاجزی کریں
اور ہم نے جس بستی میں بھی کوئی رسول بھیجا اس کے باشندوں کو مالی اور جسمانی مصائب سے آزمایا کہ وہ رجوع کریں۔
گزشتہ آیات میں پانچ ایسی قوموں کا تذکرہ گزرا ہے جن پر اس لیے اللہ کا عذاب آیا کہ انھوں نے اللہ کے رسولوں کی دعوت کو قبول کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ اللہ کے رسول کی تمام تبلیغی مساعی کے مقابلے میں انھوں نے اذیت رسانی اور مخالفت کی انتہاء کردی جب اللہ کی جانب سے ان پر اتمام حجت ہوگیا تو اللہ کا عذاب ان پر ٹوٹا اور وہ دنیا میں عبرت کی علامت بن کر رہ گئے۔ آئندہ آیات میں وہ اصول و ضوابط بیان کیے جا رہے ہیں جن سے امتوں کو آزمایا جاتا ہے اور جو اتمام حجت کی بنیاد بنتے ہیں اور بالآخر اس کے نتیجے میں ان کی قسمت کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں پیغمبر کی بعثت کے بعد سب سے پہلے جو آزمائش پیغمبر کی امت پر اترتی ہے اور جس سے انھیں سب سے پہلے آزمایا جاتا ہے اس کا ذکر فرمایا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : وَمَااَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیِّ اِلَّآ اَخَذْنَآاَھْلَھَا بِالْبْاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ لَعَلَّھُمْ یَضَّرَّعُوْنَ ۔ (الاعراف : 94) ” اور ہم نے جس بستی میں بھی کوئی رسول بھیجا اس کے باشندوں کو مالی اور جسمانی مصائب سے آزمایا کہ وہ رجوع کریں “۔ بأسا اور ضراء کا مفہوم اس آیت کریمہ کی وضاحت سے پہلے چند الفاظ کی وضاحت ضروری ہے۔ اس میں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں : اَلْبْاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ یہ دونوں لفظ جب ایک دوسرے کے بالمقابل استعمال ہوں تو پہلے لفظ سے مالی آفتیں مراد ہوتی ہیں مثلاً قحط سالی ‘ کساد بازاری ‘ مہنگائی وغیرہ اور دوسرے لفظ سے جسمانی آفتیں مراد ہوتی ہیں مثلاً بیماریاں اور وبائیں وغیرہ لیکن جب ضَّرَّآء کا لفظ سَرَّآء کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو یہ دونوں الفاظ ہر قسم کی بدحالی اور خوشحالی کے معنی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ایک خاص سنت کا تذکرہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک خاص سنت کو بیان فرمایا ہے جس کا ظہور ہمیشہ انبیاء کی بعثت کے ساتھ ہی ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی کسی پیغمبر کی بعثت ہوتی ہے اور وہ جس قوم کی طرف مبعوث ہوتے ہیں جب وہ انھیں اللہ کی طرف دعوت دینا شروع کرتے ہیں اور ان کے بگڑے ہوئے عقائد ملحدانہ خیالات اور ان کی بداعمالیوں پر تنقید شروع کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ نسلوں کے بگڑے ہوئے لوگ اور مدت کی بنی ہوئی عادتیں اور قدیمی گمراہیاں اور آبائی ورثے میں ملے ہوئے مشرکانہ اور ملحدانہ خیالات ایسے تو نہیں ہوتے کہ قوم انھیں چھوڑنے پر آمادہ ہوجائے اور انسانی فطرت یہ ہے کہ جن اعتقادات اور اعمال کے ساتھ اس کا قلبی رشتہ مستحکم ہوجاتا ہے وہ اس پر تنقید کبھی گوارا نہیں کرتی بلکہ وہ تنقید کرنے والے کے ساتھ مرنے مارنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔ ان کی غلط باتوں پر تنقید چاہے کیسے ہی علمی اور فطری اسلوب کے ساتھ کی جائے وہ انھیں ہمیشہ ناگوار گزرتی ہے اور وہ حتی الامکان ایسی زبان کھینچنے سے بھی گریز نہیں کرتے جس زبان سے ان کو ایسی باتیں سننی پڑتی ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی مدد کے لیے یہ طریقہ اختیار فرماتے ہیں کہ اس قوم کو مختلف مالی اور جسمانی پریشانیوں میں مبتلا کردیتے ہیں کبھی ان پر قحط مسلط کردیا جاتا ہے ‘ کبھی سیلاب کے بند کھول دیئے جاتے ہیں ‘ کبھی بارشیں منہ زور ہوجاتی ہیں ‘ کبھی وبائیں پھوٹ پڑتی ہیں ‘ کبھی ان میں تعلقات کا بگاڑ خانہ جنگی تک پہنچ جاتا ہے یہ سب مصیبتیں ان پر اس لیے مسلط کی جاتی ہیں تاکہ ان کی اکڑی ہوئی گردن جھکنے پر مجبور ہوجائے اور وہ آہستہ آہستہ اس بات کو سوچنے لگیں کہ ہم جو آج تک ہر معاملے میں اپنے ہی دست وبازو پر بھروسہ کرتے رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ حالات کا ہر رشتہ شاید ہمارے ہی ہاتھ میں ہے اور ہم سے بڑی کوئی اور طاقت نہیں اگر ایسا ہوتا تو ہم ان مصائب پر بھی قابو پالیتے۔ آخر یہ کیا ہو رہا ہے کہ ایک پریشانی دور ہونے میں نہیں آتی کہ دوسری حملہ آور ہوجاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہم اتنے طاقت ور اور قدرتوں کے مالک نہیں ہیں جتنا ہم اپنے آپ کو سمجھتے ہیں اور اس زمین پر صرف ہماری ہی طاقت نہیں اور صرف ہمارا ہی حکم نہیں چلتا بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل حکمران طاقت کوئی اور ہے چناچہ جیسے جیسے ان مصائب کی وجہ سے ان کے اندر یہ احساس توانا ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے ان کی گردن جھکتی جاتی ہے اور وہ اللہ کی طرف رجوع کرنے لگتے ہیں اور پھر انھیں پیغمبر کی دعوت سمجھ میں آنے لگتی ہے کیونکہ انسانی فطرت یہ ہے کہ خوشحالی اور آسودگی انسان کو یا تو غافل بناتی ہے اور یا اسے من مرضی کی زندگی پر اکساتی ہے جس کے نتیجے میں خواہشات کو کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے اور اللہ کی زمین فساد سے بھر جاتی ہے لیکن مصیبتیں اور پریشانیاں عموماً بڑے بڑے بگڑے ہوئے لوگوں کو بھی کبھی نہ کبھی سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں اور وہ پریشانیوں سے مجبور ہو کر نصیحت کی باتوں پر کان دھرنے لگتے ہیں اور جب کوئی اور سہارا دکھائی نہیں دیتا اور کوئی ہاتھ دستگیری کے لیے آگے نہیں بڑھتا اور کسی مسیحا سے شفا نہیں ملتی تو پھر کبھی نہ کبھی دل میں اللہ کی یاد کسمسانے لگتی ہے اور زبان پر خواہی نہ خواہی اللہ کا نام آنے لگتا ہے۔ اسی لیے اہل اللہ کے یہاں مصیبت اور بیماری کو صحت اور راحت سے بڑھ کر اللہ کی نعمت سمجھا گیا ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حاجی امداد اللہ صاحب ( رح) ایک دفعہ اپنی مجلس میں یہ فرما رہے تھے کہ صحت بھی اللہ کی نعمت ہے اور بیماری بھی اللہ کی نعمت ہے لیکن بیماری صحت سے بڑی نعمت ہے۔ کسی نے پوچھا حضرت بیماری صحت سے بڑی نعمت کیسے ہوسکتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ نعمت اصل میں وہ ہوتی ہے جو منعم کی یاد دلائے جس سے اپنے محبوب کی یاد تازہ ہوجائے اور اپنے دوست کی یاد ستانے لگے۔ راحتیں اور نعمتیں آدمی کو اللہ جیسے منعم حقیقی اور محبوب برحق سے غافل کردیتی ہیں لیکن مصیبتیں اور بیماریاں اس شفا دینے والے اور مصیبتیں دور کرنے والے کی یاد دلاتی ہیں تو جو چیز اپنے محبوب اور دوست کی یاد دلائے ظاہر ہے وہی بڑی نعمت ہوگی۔ آپ ابھی یہ باتیں فرما ہی رہے تھے کہ اچانک ایک شخص روتا ہوا مجلس میں داخل ہوا اور حاجی صاحب کو اپنی طرف متوجہ پا کر کہنے لگا کہ حضرت میں بیماری کے ہاتھوں اس حد تک بےبس ہوگیا ہوں کہ اگر خود کشی جائزہوتی تو میں خودکشی کرلیتا اب یہ بیماری مجھ سے برداشت نہیں ہو پا رہی۔ آپ اللہ سے میرے لیے صحت کی دعا فرمائیں۔ سننے والے سوچنے لگے کہ دیکھئے حاجی صاحب اب کیا فرماتے ہیں کیونکہ وہ تو ابھی بیماری کو صحت سے بڑھ کر نعمت قرار دے رہے تھے حاجی صاحب نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا : یا اللہ صحت بھی تیری نعمت ہے اور بیماری بھی تیری نعمت ہے بلکہ بیماری بڑی نعمت ہے لیکن یہ بڑی نعمت ہونے کے ساتھ ساتھ بھاری اور مشکل نعمت بھی ہے جسے ہر کوئی برداشت نہیں کرسکتا ہم تیرے کمزور بندے ہیں تو اپنی سخت نعمت کو واپس لے لے اور اس کے بدلے میں نرم نعمت یعنی صحت عطا فرما اور ہماری کمزوریوں پر رحم فرما۔ کہنا صرف یہ ہے کہ ہر پیغمبر کی بعثت کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ اس قوم پر مصائب نازل فرماتا ہے تاکہ جب زمین و آسمان پیغمبر کی دعوت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر انھیں یہ بات سمجھانے لگیں کہ دیکھو تمہارے سروں پر ایک احکم الحاکمین کی ذات بھی ہے۔ تمہارا سب کچھ اس کے ہاتھوں میں ہے وہ جب چاہے تمہاری صحت چھین سکتا ہے، تمہاری آسودگی ختم کرسکتا ہے ‘ تمہاری خوشحالیاں بدحالیوں میں تبدیل کرسکتا ہے۔ تم اپنے طور پر اس کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے ہو۔ اسی نے تمہیں زندگی عطا فرمائی ہے اور وہی تمہیں ہر طرح کی نعمتیں عطا فرما رہا ہے یہ دونوں دعوتیں جب اکٹھی ہوجاتی ہیں تو لوگوں کو اللہ کی طرف جھکنے اور عاجزی اختیار کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ جو خوش نصیب ہوتے ہیں وہ فی الواقع اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور پیغمبر کی دعوت کو قبول کر کے اپنی دنیا اور عقبیٰ درست کرلیتے ہیں لیکن جو بدنصیب ہوتے ہیں وہ ان مصائب کا شکار ہو کر بھی راہ راست اختیار کرنے کی بجائے اور پتھردل ہوجاتے ہیں اور ان کا بگاڑ بعض دفعہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ پیغمبر کو ان مصائب کا ذمہ دار سمجھنے لگتے ہیں اور مسلمانوں سے یہ کہتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہم پر مصیبتیں آرہی ہیں یہ تمہاری نحوست ہے اور وہ اس صورت حال سے نصیحت حاصل کرنے کی بجائے ایک اور فتنے کا شکار ہوجاتے ہیں اور اسے دلیل کے طور پر اپنے رویے کی تائید میں استعمال کرتے ہیں وہ جب یہ دیکھتے ہیں کہ یہ مصائب جو ہم پر نازل ہو رہے ہیں اس کا شکار صرف ہم ہی نہیں ہو رہے بلکہ یہ مصیبتیں برابر مسلمانوں کو بھی اپنا شکار کر رہی ہیں۔ اگر کسادبازاری ہمیں پریشان کر رہی ہے تو مسلمان بھی اس سے بچے ہوئے نہیں ہیں اور اگر قحط نے ہمیں زار و نزار کردیا ہے تو مسلمان بھی اس سے امان میں نہیں ہیں۔ وہ جب یہ دیکھتے ہیں کہ اگر کہیں سائیکلون اٹھتا ہے تو بلا امتیاز نیک وبد سب کو بہا کرلے جاتا ہے ‘ اگر زلزلہ آیا ہے تو اس سے صرف کافروں کے مکان نہیں گرتے مسلمانوں کی عمارتیں بھی اس سے تباہ ہوئے بغیر نہیں رہتیں۔ اگر اس سے کلیسا و مندر گرتے ہیں تو مسجدیں بھی محفوظ نہیں رہتیں۔ اس سے وہ یہ دلیل پکڑتے ہیں کہ اگر ان مصائب کا نزول ہمارے کفر اور بداعمالیوں کے سبب سے ہوتا تو صرف ہم ہی اس کی گرفت میں آتے اور مسلمان اس سے محفوظ رہتے اور قحط اگر ہماری کمر توڑتا تو مسلمانوں کے گھروں میں تو من وسلویٰ اترنا چاہیے لیکن جب ان مصیبتوں کا شکار مسلم اور کافر دونوں ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سراسر اتفاقات کا نتیجہ ہے اور قوموں پر ایسے سرد اور گرم دن آتے ہی رہتے ہیں اس کا کوئی تعلق نیکی اور بدی سے نہیں اس لیے بجائے اس سے اثر قبول کرنے کے ان کے انکار میں اور شدت آجاتی ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ صحیح ہے کہ جو مصیبتیں آزمائش بن کر اترتی ہیں اس میں مومن اور کافر دونوں آزمائے جاتے ہیں لیکن کافر کو تو اس لیے مبتلا کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کفر سے باز آجائے لیکن مومن کو اس ابتلا سے جو فائدہ پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کی سیرت و کردار میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔ اسے صبر جیسی عظیم دولت نصیب ہوتی ہے اسے ان مصائب سے گزار کر کندن بنایا جاتا ہے۔ اس لیے کفر جب کبھی اس کا امتحان لیتا ہے تو سیرت و کردار کی یہ تعمیر اس کی استقامت میں مدد فراہم کرتی ہے وہ بڑے سے بڑے طوفان کے سامنے سینہ سپر ہونے کی جرأت رکھتا ہے۔ یہ تو وہ فائدے ہیں جو دنیا میں مومن کو نصیب ہوتے ہیں رہی آخرت تو اس دنیا میں اگر مومن نے کانٹے کی چبھن بھی سہی ہوگی تو آخرت میں یہ چبھن جنت کا پھول بن جائے گی۔ وہاں جب وہ دنیا میں گزرے ہوئے مصائب پر اجر وثواب دیکھے گا تو وہ تمنا کرے گا کہ کاش دنیا میں ‘ میں اور بڑے مصائب سے گزرا ہوتا۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت میں جب مومن مصیبتوں پر صبر کرنے کا صلہ پائے گا تو وہ تمنا کرے گا کاش میری کھال کو قینچیوں سے کاٹا گیا ہوتا۔ اس لیے بظاہر مومن اور کافر ایک ہی طرح سے مصائب کا شکار ہوتے ہیں لیکن انجام اور نتائج کے اعتبار سے دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ایک ارشاد اس صورت حال کی وضاحت کے لیے کافی ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا : لا یزال البلاء بالمؤمن حتیٰ یخرج نقیاً من ذنوبہٖ ‘ والمنافق مثلہ کمثل الحمار لایدری فیم ربطہ اھلہ ولَا فِیْمَ ارسلوہ ” مصیبت مومن کی تو اصلاح کرتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ جب وہ اس بھٹی سے نکلتا ہے تو ساری کھوٹ سے صاف ہو کر نکلتا ہے لیکن منافق کی حالت بالکل گدھے کی سی ہوتی ہے جو کچھ نہیں سمجھتا کہ اس کے مالک نے کیوں اسے باندھا تھا اور کیوں اسے چھوڑ دیا “۔ یہاں یہ بات اور جان لینی چائے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جس ضابطہ کا ذکر فرمایا ہے ٹھیک یہی ضابطہ نبی ﷺ کی بعثت کے موقع پر بھی برتا گیا اور شامت زدہ قوموں کے جس طرز عمل کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے ٹھیک وہی طرز عمل سورة اعراف کے نزول کے زمانہ میں قریش والوں سے ظاہر ہو رہا تھا۔ حدیث میں عبد اللہ بن مسعود ( رض) عنہ اور عبد اللہ بن عباس ( رض) دونوں کی متفقہ روایت ہے کہ نبی ﷺ کی بعثت کے بعد جب قریش کے لوگوں نے آپ کی دعوت کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنا شروع کیا تو حضور ﷺ نے دعا کی کہ خدایا ‘ یوسف کے زمانہ میں جیسا ہفت سالہ قحط پڑا تھا ویسے ہی قحط سے ان لوگوں کے مقابلہ میں میری مدد کر۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں سخت قحط میں مبتلا کردیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ مردار کھانے لگے ‘ چمڑے ‘ ہڈیاں اور اون تک کھا گئے۔ آخر کار مکہ کے لوگوں نے ‘ جن میں ابوسفیاں پیش پیش تھا ‘ حضور ﷺ سے درخواست کی کہ ہمارے لیے خدا سے دعا کیجیے۔ مگر جب آپ کی دعا سے اللہ نے وہ برا وقت ٹال دیا اور بھلے دن آئے تو ان لوگوں کی گردنیں پہلے سے زیادہ اکڑ گئیں ‘ اور جن کے دل تھوڑے سے پسیج گئے تھے ان کو بھی اشرارِ قوم نے یہ کہہ کہہ کر ایمان سے روکنا شروع کردیا کہ میاں ‘ یہ تو زمانے کا اتار چڑھائو ہے۔ پہلے بھی آخر قحط آتے ہی رہے ہیں ‘ کوئی نئی بات تو نہیں ہے کہ اس مرتبہ ایک لمبا قحط پڑگیا ‘ لہٰذا ان چیزوں سے دھوکہ کھا کر محمد ﷺ کے پھندے میں نہ پھنس جانا۔ یہ تقریریں اس زمانے میں ہو رہی تھیں جب یہ سورة اعراف نازل ہوئی ہے اس لیے قرآن مجید کی یہ آیات ٹھیک اپنے موقع پر چسپاں ہوتی ہیں اور اسی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے ان کی معنویت پوری طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جب کسی قوم پر ان مصائب کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ ان کے دل پتھر اور کان بہرے ہوجاتے ہیں تو پھر یہ سنت الٰہی ایک دوسری شکل اختیار کرلیتی ہے جس کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں کیا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :
Top