Ruh-ul-Quran - Nooh : 15
اَلَمْ تَرَوْا كَیْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاۙ
اَلَمْ تَرَوْا : کیا تم نے دیکھا نہیں كَيْفَ : کس طرح خَلَقَ اللّٰهُ : پیدا کیا اللہ نے سَبْعَ سَمٰوٰتٍ : سات آسمانوں کو طِبَاقًا : تہ بہ تہ
کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بہ تہ بنائے
اَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۔ وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِیْھِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا۔ وَاللّٰہُ اَنْبَتَـکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا۔ ثُمَّ یُعْیِدُکُمْ فِیْھَا وَیُحْزِجُکُمْ اِخْرَاجاً ۔ وَاللّٰہُ جَعَلَ لَـکُمُ الْاَرْضَ بِسَاطًا۔ لِّـتَسْلُـکُوْا مِنْھَا سُبُلاً فِجَاجًا۔ (نوح : 15 تا 20) (کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بہ تہ بنائے۔ اور چاند کو ان کے اندر روشنی بنایا اور سورج کو چراغ بنایا۔ اور اللہ ہی نے تم کو زمین سے خاص اہتمام سے اگایا۔ پھر وہ تمہیں اسی زمین میں واپس لے جائے گا اور اس سے یکایک تم کو نکال کھڑا کرے گا۔ اور اللہ ہی نے تمہارے لیے زمین کو فرش کی طرح بچھا دیا۔ تاکہ تم اس کی کھلی راہوں میں چلو۔ ) اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ہمہ گیری اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی ہمہ گیری اور اس کی عظمت کو دلوں میں اتارنے کے لیے ان چھ آیتوں میں مختلف مخلوقات کی پیدائش کا ذکر فرمایا ہے۔ اکثر مفسرین کا خیال یہ ہے کہ یہ چھ آیتیں حضرت نوح (علیہ السلام) کی تقریر کا حصہ ہیں۔ لیکن بعض اہل علم کا گمان یہ ہے کہ ممکن ہے کہ یہ آیتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور تضمین تقریر کی تکمیل کے لیے شامل کی گئی ہوں۔ وہ دلیل کے طور پر یہ کہتے ہیں کہ ان آیتوں کے تضمین ہونے پر ایک قرینہ موجود ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی تقریر مسلسل جاری ہے لیکن ان آیتوں کے اختتام پر قَالَ نُوْحُ رَّبِّ کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اگر یہ آیات حضرت نوح (علیہ السلام) کی تقریر کا حصہ ہوتیں تو اس جملے کا اعادہ نہ کیا جاتا۔ دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت بھی اختیار کرلی جائے مفہوم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے اظہار کے لیے بعض نشانیوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں نشانی سات آسمانوں کا تہ بہ تہ پیدا کیا جانا ہے۔ آسمان کے وسیع حجم، اس کی حیران کن بلندی، اس کا حیرت میں ڈال دینے والا استحکام، امتدادِ زمانہ کے باوجود کہیں اس میں کسی دراڑ کا پیدا نہ ہونا ان میں سے ایک ایک بات اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بےپناہی اور انسان کو ششدر کردینے والی ہے۔ قرآن کریم میں اور بھی کئی جگہ اس دلیل کو بیان کرکے سوال کیا ہے کہ کیا تمہیں پیدا کرنا مشکل ہے یا آسمان کو بنانا۔ جو آسمان کو بنانے پر قادر ہے وہ تمہیں ازسرنو زندہ کردینے پر قادر کیوں نہیں۔ طِبَاقًا … تہ بہ تہ۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ کپڑے کی تہوں کی طرح آسمان کی بھی سات تہیں ہیں بلکہ اس سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات جہان پیدا کیے ہیں اور ان کے الگ الگ سات آسمان ہیں، لیکن ہم ان چیزوں کی حقیقت سے واقف نہیں۔ قرآن نے انھیں صرف اللہ تعالیٰ کی غیرمحدود قدرت کا ایک اجمالی تصور دینے کے لیے بیان کیا ہے۔ اس لیے ان پر اجمالی ایمان ہی کافی ہے۔ اس کی صحیح حقیقت سے پردہ قیامت کے دن اٹھے گا۔ سائنس اس کے بارے میں اپنی نارسائی کے اعتراف کے سوا اور کچھ نہیں کہہ سکتی۔ حقیقت کا انکشاف ابھی اس کے بس میں نہیں۔ آسمانوں کا ذکر کرنے کے بعد چاند اور سورج جیسی دو عظیم نشانیوں کا ذکر فرمایا۔ کہنا صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا اظہار صرف آسمانوں کی تخلیق ہی میں نہیں بلکہ اس کی حکمت اور عالمگیر ربو بیت میں بھی ہے۔ اس کی ربوبیت کا تقاضا یہ ہوا کہ ان جہانوں کو عالم ظلمات نہ بنایا جائے۔ اس لیے ان میں چاند کا دیا اور سورج کا چراغ روشن کیا گیا۔ آسمان اور اس کی نشانیوں کی طرف توجہ دلانے کے بعد زمین کی نشانی کی طرف توجہ دلائی۔ زمین پر چونکہ سب سے اشرف مخلوق انسان ہے اس لیے انسان کی تخلیق کا ذکر فرمایا، لیکن اس کی تخلیق کو جن الفاظ سے تعبیر کیا ہے اس سے خودبخود ایک دلیل پیدا ہوگئی ہے۔ وہ یہ کہ جس طرح زمین سے سبزہ اگتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تمہیں زمین سے اگایا اور جس طرح زمین سے اگنے والی چیزیں فنا ہو کر زمین میں مل جاتی ہیں اسی طرح تم بھی مر کر زمین میں مٹی بن جاتے ہو، پھر جس طرح تم دیکھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے فنا شدہ سبزوں کو ازسرنو زندہ کردیتا ہے اسی طرح جب چاہے گا تمہیں بھی بغیر کسی زحمت کے اٹھا کھڑا کرے گا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ زمین سے اگنے والے سبزے کے بارے میں تمام تبدیلیاں ہمارے سامنے وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ اس لیے ہمیں ان میں کوئی اشکال نہیں ہوتا۔ لیکن انسانوں کا معاملہ چونکہ ہماری آنکھوں سے ابھی دور ہے حالانکہ عقل اسے بھی قبول کرتی ہے تو ہمارے عقل کے پرستار بجائے عقل کی بات ماننے کے حواس کے قفس میں بند ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے بعد خود زمین کی نشانی کی طرف توجہ دلائی گئی جس سے اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت و حکمت کا تو اظہار ہوتا ہی ہے اس کی بےنہایت رحمت و عنایت کا بھی اظہار ہورہا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے زمین کو خالی پیدا ہی نہیں کیا بلکہ اسے تمہارے لیے بچھونا بنایا اور فرش کی طرح بچھا دیا۔ اس میں نہ ایسی سختی رکھی کہ تم اس پر بیٹھ یا لیٹ نہ سکو اور نہ اتنی نرمی رکھی کہ پائوں دھنس جائیں اور بارش برسنے سے دلدل بن جائے، پھر اسے متوازن رکھنے کے لیے پہاڑوں کی میخیں گاڑیں اور پہاڑوں کو باہم پیوست نہیں رکھا کہ تم دوسرے علاقوں سے کٹ کر رہ جاؤ بلکہ ان کے اندر درے اور راستے نکال دیئے تاکہ تم ایک سے دوسرے علاقوں میں جانے کے لیے کوئی دشواری محسوس نہ کرو۔
Top