Ruh-ul-Quran - Nooh : 14
وَ قَدْ خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا
وَقَدْ خَلَقَكُمْ : اور تحقیق اس نے پیدا کیا تم کو اَطْوَارًا : طرح طرح سے
حالانکہ اس نے طرح طرح سے تمہیں بنایا ہے
وَقَدْخَلَقَـکُمْ اَطْوَارًا۔ (نوح : 14) (حالانکہ اس نے طرح طرح سے تمہیں بنایا ہے۔ ) تخلیق کے مختلف مراحل سے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر استدلال اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی گرفت سے انسان کی بےنیازی اور لاپرواہی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے انسان کی اپنی تخلیق کے مختلف مراحل میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا جس طرح ظہور ہوتا ہے اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ تم خدا کی عظمت کے ظہور کو بہت مستبعد سمجھتے ہو اور اس کی گرفت سے بالکل نچنت ہوگئے ہو حالانکہ تم اپنی ذات کے حوالے سے ہی غور کرو تو تمہیں اپنی تخلیق کے ہر مرحلے پر اللہ تعالیٰ کی بےپناہ قدرت کا بھی احساس ہوگا اور یہ بھی اندازہ ہوگا کہ تم اس کی قدرت کے ہاتھوں میں کس قدر بےبس ہو۔ وہ تمہیں جیسا بنانا چاہتا ہے بناتا ہے اور اگر ختم کرنا چاہے یا بگاڑنا چاہے تو اس کی قدرت کے سامنے کوئی مانع نہیں۔ ذرا غور کرو کہ تم ماں اور باپ کی صلب میں الگ الگ نطفوں کی شکل میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت ہی سے یہ دونوں نطفے باہم ملے اور تمہارا استقرارِ حمل ہوا، پھر نو مہینے تک ماں کے پیٹ میں بتدریج نشو و نما دے کر تمہیں پوری انسانی شکل عطا کی اور تمہارے اندر وہ تمام قوتیں پیدا کیں جو دنیا میں انسان کی حیثیت سے کام کرنے کے لیے تمہیں درکار تھیں، پھر ایک زندہ بچے کی صورت میں تم بطن مادر سے باہر آئے اور ہر آن تمہیں ایک حالت سے دوسری حالت تک ترقی دی جاتی رہی یہاں تک کہ تم جوانی اور کہولت کی عمر کو پہنچے۔ ان میں سے ایک ایک مرحلے پر غور کرو، تم کس طرح اللہ تعالیٰ کی گرفت میں تھے اور اس کی قدرت کے سامنے کتنے بےبس تھے۔ وہ جس مرحلے میں چاہتا تمہارا وجود بننے سے روک دیتا یا تمہیں انسان کی بجائے کچھ اور بنا دیتا یا تمہیں معذور پیدا کردیتا یا تمہاری عقل میں فتور رکھ دیتا۔ تو جو انسان پیدا ہونے کے بعد مختلف حیثیتوں سے نمایاں ہوتا اور اپنے آپ کو منواتا ہے وہ کاش کبھی ان مراحل کو بھی یاد کرے جن سے گزر کر وہ اس سطح پر پہنچا ہے۔ اور پھر یہ بھی دیکھے کہ آج بھی اگر میرے جسم کو مفلوج کردیا جائے یا میرے ذہن میں اختلال پیدا کردیا جائے تو میرا سب کچھ ختم ہوسکتا ہے۔ میں کس طرح اپنے پیدا کرنے والے کے ہاتھوں میں بےبس ہوں۔ تو جس خالق ومالک اور پروردگار کی قدرت کا یہ عالم ہے اور جس کے ہاتھوں میں تم اتنے بےبس ہو، اس کے بارے میں تم نے یہ کیسے گمان کر رکھا ہے کہ اس کی شان میں ہر گستاخی کی جاسکتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہر طرح کی نمک حرامی اور احسان فراموش کا ارتکاب کیا جاسکتا ہے۔ انسان کی خلقت کے حوالے سے ہی اللہ تعالیٰ نے بعث بعدالموت اور وقوع قیامت پر استدلال کیا ہے کہ وہ پروردگار جس کی قدرت کی شانیں تم اپنی وجود میں دیکھتے ہو، اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ تمہارے مر کھپ جانے کے بعد ازسرنو تمہیں اٹھا کھڑا کرے اور تم اپنے ایک ایک عمل کو وہاں موجود پائو اور اس حوالے سے تمہیں جوابدہی کے مراحل سے گزرنا پڑے۔ قرآن کریم نے مختلف مواقع پر مختلف اسالیب میں اس دلیل کا ذکر فرمایا ہے، ہم صرف ایک مقام کا حوالہ دیتے ہیں۔ سورة الحج میں ارشاد ہے : یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّغَیْرِمُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَـکُمْ ط وَنُقِرُّفِی الْاَرْحَامِ مَانَشَآئُ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلاً ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّکُمْ ج وَمِنْـکُمْ مَّنْ یُتَوَفّٰی وَمِنْـکُمْ مَّنْ یُرَدُّ اِلٰٓی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِـکَیْلاَ یَعْلَمَ مِنْ م بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا ط وَتَرَی الْاَرْضَ ھَامِدَۃً فَاِذَٓا اَنْزَلْنَا عَلَیْھَا الْمَآئَ اھْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْبَتَتْ مِنْ کُلِّ زَوْجٍ م بَھِیْجٍ 5 ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ھُوَالْحَقُّ وَاَنَّہٗ یُحْیِ الْمَوْتٰی وَاَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ 5 لا (الحج۔ 22: 5۔ 6) ” اے لوگو ! اگر تم مرنے کے بعد اٹھائے جانے کے بارے میں شک میں ہو تو سوچو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر خون کی پھٹکی سے، پھر مضغہ گوشت سے، کوئی کامل، کوئی ادھورا، ہم نے اپنی یہ شانیں اس لیے دکھائیں کہ تم پر اپنی قدرت واضح کردیں۔ اور رحموں میں ہم ٹھہراتے ہیں جو چاہتے ہیں ایک معین مدت تک۔ پھر ہم تم کو ایک بچے کی صورت میں نکالتے ہیں، پھر ہم تم کو مہلت دیتے ہیں کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تم میں کچھ پہلے ہی مرجاتے ہیں، اور تم میں سے بعض ارذل عمر تک پہنچائے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ جاننے کے بعد کچھ نہیں جانتے اور تم زمین کو دیکھتے ہو کہ وہ بالکل خشک ہوتی ہے تو جب ہم اس پر برساتے ہیں بارش تو وہ لہریں لینے لگتی اور پھول جاتی ہے اور نوع بنوع کی خوش منظر چیزیں اگاتی ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی کارسازِ حقیقی ہے۔ اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ہمہ گیری جسے ہماری ظاہری آنکھ نہیں دیکھ سکتی لیکن میڈیکل سائنس کی کارکردگی نے ہمارے لیے اسے آسان کردیا ہے۔ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ انسانی جسم کے ترکیبی اجزاء کو خلیہ (سیل) کہتے ہیں۔ ایک اوسط درجے کا جسم اندازاً 26 ارب ملین خلیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ورزش، محنت اور مطالعہ سے یہ خلیے ٹوٹتے اور ان کی جگہ نئے خلیے بنتے رہتے ہیں۔ ماہرینِ ابدان کا اندازہ یہ ہے کہ ہر سات سال کے بعد جسم کی مکمل تجدید ہوجاتی ہے۔ پرانے خلیے مرجاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے خلیے لے لیتے ہیں۔ جو شخص یہاں عمر کے ستر سال گزارتا ہے وہ گویا دس مرتبہ مرچکا ہوتا ہے۔ لیکن موت کے ان مسلسل حملوں کے باوجود وہ زندہ رہتا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ موت کے آخری حملے کے بعد بھی وہ زندہ رہے۔ موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
Top