Ruh-ul-Quran - An-Naba : 31
اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًاۙ
اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ : بیشک متقی لوگوں کے لئے مَفَازًا : کامیابی ہے
یقینا اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے کامیابی کا ایک مقام ہے
اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مُفَازًا۔ حَدَآئِقَ وَ اَعْنَابًا۔ وَّکَوَاعِبَ اَتْرَابًا۔ وَّکَاْسًا دِھَاقًا۔ لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلاَ کِذّٰبًا۔ (النبا : 31 تا 35) (یقینا اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے کامیابی کا ایک مقام ہے۔ باغ اور انگور۔ اٹھتی ہوئی جوانیوں والی ہم سن لڑکیاں۔ اور چھلکتے ہوئے جام۔ نہ اس میں بک بک سنیں گے نہ بہتان طرازی۔ ) قیامت سے ڈرنے والوں کا صلہ اس سے پہلے ان لوگوں کا تذکرہ ہوا جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کی اور جو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری کی امید نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے وہ اپنے نفس کے اتباع میں سرکشی کی زندگی گزارتے تھے، اور ساتھ ہی ساتھ ان کا انجام بھی بیان ہوا۔ اب ان کے مقابلے میں ان لوگوں کا ذکر کیا جارہا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے، ہر کام کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رضا کی فکر کرتے ہیں اور ہمیشہ یہ خیال ان کے دامن گیر رہتا ہے کہ ایک نہ ایک دن اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے اور وہاں اپنے ایک ایک عمل کا جواب دینا ہے۔ یہی لوگ ہیں جن کو یہاں متقین کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انھیں اپنے تقویٰ ، خدا ترسی اور جوابدہی کے خوف کے تحت گزاری ہوئی زندگی کا صلہ یہ ملے گا کہ انھیں باغات عطا کیے جائیں گے اور انگوروں سے نوازا جائے گا۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جنت جس میں ان کا مقام ہوگا وہ بہت بڑے بڑے باغات ہوں گے اور ” حدائق “ کا اطلاق عام طور پر کھجوروں کے باغ پر ہوتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں کھجوروں کے باغ دیئے جائیں گے۔ اور ساتھ ہی ساتھ انگوروں کے باغ بھی دیئے جائیں گے اور یہ کھجوروں کے باغ سے الگ باغ ہوں گے جسے اگر انگورستان کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ اور دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اہل عرب عام طور پر اس باغ کو نمونے کا اور قیمتی باغ سمجھتے تھے جس کے باہر کھجوروں کے جھنڈ ہوتے جو حصار کا کام دیتے اور اندر اس کے انگوروں اور دوسرے پھلوں اور سبزیوں کے قطعات ہوتے۔ اور یہ ایک بلند جگہ پر واقع ہوتا تاکہ سیلاب کی دستبرد سے محفوظ رہے۔ اور بارش کے پانی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔ یہاں حدائق اور اعناب کا ایک ساتھ ذکر ہوسکتا ہے اسی مفہوم کے لیے ہو۔ دونوں صورتوں میں ایک بات تو واضح ہے کہ انھیں کھجوریں بھی فراوانی سے عطا ہوں گی جو اہل عرب کی اصل خوراک ہیں اور انگور بھی بکثرت ملیں گے جو ان کے تفکہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ گزشتہ آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر کیے جانے والے احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا۔ یعنی مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا جوڑا بنایا۔ کیونکہ دونوں کی زندگی ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہے اور دونوں ایک دوسرے کے لیے سکون کا ذریعہ ہیں۔ یہاں بھی شاید یہی فرمایا جارہا ہے کہ کام و دہن کی لذت کے لیے جنت میں جس طرح بیشمار نعمتیں عطا کی جائیں گی اسی طرح مردوں کی تنہائی دور کرنے کے لیے انھیں وہ عورتیں بھی دی جائیں گی جنھیں قرآن و حدیث میں حوروں کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس طرح یہ حوریں مردوں کے سکون کا باعث ہوں گی اسی طرح جنت کے مرد بھی ان کی خوشیوں میں اضافے کا باعث ہوں گے۔ اور ان حوروں کی تعریف میں یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ اٹھتی ہوئی جوانیوں والی ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ یہ عمر ہر لحاظ سے اپنے اندر خوشیوں کی نوید رکھتی ہے۔ اور دوسری یہ بات کہ جن مردوں کو یہ حوریں دی جائیں گی یہ ان کی ہم عمر ہوں گی۔ اور یا سب اہل جنت کے لیے ہم سن اور ہم عمر حوریں ہوں گی۔ وہ آپس میں بھی سہیلیوں کی طرح ملیں گی اور اپنے رفقائِ حیات کے لیے بھی مسرتوں کا پیغام لے کر آئیں گی۔ اور کسی جنتی کو یہ خیال نہیں ہوگا کہ فلاں جنتی کو تو ایسی بیوی دی گئی ہے جو نوخیز کلی کی مانند ہے، لیکن میری بیوی ایسی نہیں۔ اس لیے فرمایا کہ سب ہم سن لڑکیاں ہوں گی۔ عرب کی کوئی مجلس جو عیش و نشاط کے لیے منعقد ہوتی تھی اس کا لازمی حصہ مے نوشی بھی تھی۔ کیونکہ جب تک وہ شراب کے نشے میں مخمور ہو کر ناچنے نہیں لگتے تھے اس وقت تک اپنی خوشیوں کو نامکمل سمجھتے تھے۔ لیکن یہ خوشیاں چونکہ عارضی گناہ پیدا کرنے والی حرام اور ظلم سے آلودہ ہوتی تھیں، اسلام نے اس سے زندگی بھر کے لیے روک دیا اور اس کے بدلے میں وہ تمام نعمتیں دینے کا وعدہ فرمایا جس کی انسان ہمیشہ تمنا کرتا ہے۔ چناچہ اسی سلسلے میں فرمایا کہ تمہیں جنت میں شراب پینے کی عام اجازت ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ شراب طہور ہوگی جس میں خمار نہیں ہوگا۔ جس کے نتیجے میں کسی گناہ کا تصور ابھرنے نہیں پائے گا۔ ہر مجلس میں بیٹھنے والوں کے ہاتھوں میں چھلکتے ہوئے جام ہوں گے۔ یعنی کثرت شراب نوشی سے انھیں روکا نہیں جائے گا۔ شراب نوشی کی کثرت سے جو مفاسد پیدا ہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب شراب کے نشے کا عقل پر غلبہ ہوتا ہے تو انسان لغویات بکتا ہے۔ اچھا خاصا سنجیدہ انسان الٹی سیدھی حرکتیں کرتا اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں کہتا اور لاف زنی کرتا ہوا ہر انتہا سے آگے نکل جاتا ہے۔ اور دوسری خرابی اس میں یہ ہے کہ عقل و ہوش کے مائوف ہونے کی وجہ سے شراب کی ترنگ میں آکر بعض دفعہ دوسروں پر تہمتیں لگانے سے بھی باز نہیں آتا۔ بعض لوگوں کی بیٹیوں اور بہنوں کا نام لے کر ان سے معاشقے کا اظہار کرتا ہے۔ عرب چونکہ اہل یورپ کی طرح بےغیرت نہیں، غیرت مند لوگ تھے اس لیے شراب کی مجلسوں میں اس طرح کی تہمتیں بعض دفعہ ان کی غیرت کو اس طرح اشتعال دیتیں کہ قبیلوں کی آپس میں جنگ چھڑ جاتی۔ اور ایک شخص کی بدمستی میں کہی ہوئی بات نہ جانے کتنی زندگیوں کے لیے خطرہ ثابت ہوتی۔ چناچہ اسی پس منظر میں فرمایا گیا ہے کہ جنت میں تمہیں شراب کے چھلکتے ہوئے جام ملیں گے اس کو پی کر تم ایک ایسے کیف و سرود میں ڈوب جاؤ گے جس کا دنیا میں تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ لیکن وہ تمہاری عقلوں کو مائوف نہیں کرے گی۔ اس لیے وہاں کوئی شخص بھی نہ زبان پر کوئی لغو بات لائے گا، نہ ہر زہ سرائی کرے گا اور نہ کسی پر تہمت باندھے گا۔ لغو سے مراد بےسروپا بےہودہ باتیں اور کذاب سے مراد وہ جھوٹی تہمتیں ہیں جو دشمنی کا باعث بنتی ہیں۔
Top