Ruh-ul-Quran - An-Naba : 40
اِنَّاۤ اَنْذَرْنٰكُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا١ۖۚ۬ یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُ وَ یَقُوْلُ الْكٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْ كُنْتُ تُرٰبًا۠   ۧ
اِنَّآ اَنْذَرْنٰكُمْ : بیشک ہم نے، خبردار کیا ہم نے تم کو عَذَابًا قَرِيْبًا ڄ : قریبی عذاب سے يَّوْمَ يَنْظُرُ : جس دن دیکھے گا الْمَرْءُ : انسان مَا قَدَّمَتْ يَدٰهُ : جو آگے بھیجا اس کے دونوں ہاتھوں نے وَيَقُوْلُ الْكٰفِرُ : اور کہے گا کافر يٰلَيْتَنِيْ : اے کاش کہ میں كُنْتُ تُرٰبًا : میں ہوتا مٹی/خاک
ہم نے تم لوگوں کو ایک قریب آجانے والے عذاب سے آگاہ کردیا ہے، جس روز آدمی وہ سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے، اور کافر پکار اٹھے گا، کاش ! میں مٹی ہوتا
اِنَّآ اَنْذَرْنٰـکُمْ عَذَابًا قَرِیْـبًاصلے ج 5 یَّوْمَ یَنْظُرُالْمَرْئُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ وَیَقُوْلُ الْکٰفِرُ یٰـلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرٰ بًا۔ (النبا : 40) (ہم نے تم لوگوں کو ایک قریب آجانے والے عذاب سے آگاہ کردیا ہے، جس روز آدمی وہ سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے، اور کافر پکار اٹھے گا، کاش ! میں مٹی ہوتا۔ ) آخری تنبیہ یہ آخری تنبیہ ہے اور اتمامِ حجت بھی۔ اس میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے تمہیں ایک ایسے عذاب سے خبردار کردیا ہے جو بالکل قریب آچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس عذاب سے کون سا عذاب مراد ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اس سے مراد وہ عذاب ہے جو دنیا میں اللہ تعالیٰ کے رسول کے بعثت کے بعد ہر اس قوم پر آتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے رسول کی تکذیب کرتی اور پھر اس پر جم جاتی ہے۔ لیکن آیت کا دوسرا جملہ اس بات پر قرینہ ہے کہ اس سے مراد دنیا میں آنے والا عذاب نہیں جو سنت الٰہی کے مطابق آتا ہے بلکہ اس سے مراد قیامت ہے۔ اور اس میں مجرمین کو ہونے والا عذاب ہے کیونکہ وہی دن ہوگا جب آدمی اپنی آنکھوں سے اپنے تمام اعمال کو دیکھے گا۔ اس پر سوال یہ ہے کہ اس میں تو فرمایا گیا ہے کہ یہ عذاب بالکل قریب آچکا ہے جبکہ قیامت کے آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ اور اس آیت کریمہ کو نازل ہوئے بھی تقریباً ڈیڑھ ہزار سال کا عرصہ ہونے کو ہے۔ اور آئندہ بھی کچھ خبر نہیں کہ قیامت کا وقوع کب ہوگا۔ تو پھر اسے قریب کیسے کہا جاسکتا ہے۔ بات درحقیقت یہ ہے کہ ایک انسان کے لیے دو مرحلے فیصلہ کن ہیں۔ پہلا مرحلہ دنیا کی زندگی ہے۔ یہ مہلت عمل ہے اور یہاں کا ایک ایک لمحہ آخرت کے امتحان کی تیاری کے لیے ہے۔ جب موت زندگی کا چراغ گل کردیتی ہے تو یہ مرحلہ ختم ہوجاتا ہے۔ اور عمل کے تمام امکانات بھی معدوم ہوجاتے ہیں۔ اب اس کے بعد دوسرا مرحلہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس زندگی میں جو کچھ کیا گیا ہے اس کی جانچ پرکھ کا وقت آئے اور پھر جزاء و سزا کا فیصلہ ہو۔ درمیان میں برزخی زندگی صرف انتظار کی مدت ہے جو انسانی زندگی کے لیے فیصلہ کن نہیں۔ تو جب انسان موت کا شکار ہوتا ہے اور پہلا مرحلہ اختتام کو پہنچتا ہے تو مہلت عمل ختم ہوجانے کی وجہ سے یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کی قیامت کا آغاز ہوگیا۔ کیونکہ اب صرف جزاء و سزا کا انتظار ہے۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُـہٗ ” جو شخص مرگیا اس کی قیامت قائم ہوگئی۔ “ اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح موت آدمی کے بہت قریب ہے اسی طرح قیامت بھی قریب ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو وقت کا احساس صرف اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ اس دنیا میں زمان و مکان کی حدود کے اندر جسمانی طور پر زندگی بسر کررہا ہے۔ مرنے کے جب صرف روح باقی رہ جائے گی وقت کا احساس و شعور باقی نہ رہے گا۔ اور قیامت کے روز انسان جب دوبارہ زندہ ہو کر اٹھے گا اس وقت اسے یوں محسوس ہوگا کہ ابھی سوتے سوتے کسی نے اسے جگا دیا ہے۔ اس کو یہ احساس بالکل نہیں ہوگا کہ وہ ہزارہا سال کے بعد دوبارہ زندہ ہوا ہے۔ وہ قیامت اور آخرت جسے جزاء کا دن کہا جاتا ہے اس کا وقوع تو اپنے وقت پر ہوگا جس کا ٹھیک ٹھیک علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں۔ لیکن جہاں تک قیامت کی علامت جزاء و سزا کا تعلق ہے اس کا ظہور بعض دفعہ افراد اور قومیں دنیا میں بھی دیکھتے ہیں۔ حالانکہ دنیا دارالعمل ہے لیکن کبھی کبھی بعض اعمال کے نتائج دنیا میں بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ اور اگر اس کا دائرہ وسیع ہو اور قوم کا بیشتر حصہ اس کی لپیٹ میں آجائے تو اہل نظر محسوس کرنے لگتے ہیں کہ قیامت برپا ہوگئی۔ اور ایسی قیامت یں شاید اس لیے ہوتی ہیں تاکہ اصل قیامت کی یاددہانی کرا سکیں۔ آج بھی دنیا ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے اور امت مسلمہ بالخصوص ہر روز ایک نئی قیامت کا سامنا کر رہی ہے۔ اس لیے جگر مرادآبادی نے کہا : اربابِ نظر کی خدمت میں اتنی سی گزارش ہے میری دنیا سے قیامت دور سہی دنیا کی قیامت دور نہیں آیت کے آخری حصہ میں فرمایا گیا ہے کہ آج اہل مکہ اور اشرافِ قریش کو قیامت کا یقین نہیں آتا بلکہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اور اس کی فکر کرنے کی بجائے سرکشی کا رویہ دکھاتے ہیں۔ اور اگر انھیں کوئی سمجھانے کی کوشش کرے تو پٹھے پر ہاتھ نہیں دھرنے دیتے۔ لیکن جب ان کا قیامت سے سامنا ہوگا ان میں سے ایک ایک کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں مٹی ہی رہا ہوتا اور مجھے مٹی سے نہ اٹھایا جاتا تاکہ آج میں اس صورتحال کا سامنا نہ کرتا۔ لوگوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ اس حسرت ناک انجام سے دوچار ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف راستہ اختیار کریں۔
Top