Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 102
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ١ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهٖ وَ اَنَّهٗۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَجِيْبُوْا : قبول کرلو لِلّٰهِ : اللہ کا وَلِلرَّسُوْلِ : اور اس کے رسول کا اِذَا : جب دَعَاكُمْ : وہ بلائیں تمہیں لِمَا يُحْيِيْكُمْ : اس کے لیے جو زندگی بخشے تمہیں وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ يَحُوْلُ : حائل ہوجاتا ہے بَيْنَ : درمیان الْمَرْءِ : آدمی وَقَلْبِهٖ : اور اس کا دل وَاَنَّهٗٓ : اور یہ کہ اِلَيْهِ : اس کی طرف تُحْشَرُوْنَ : تم اٹھائے جاؤگے
اے ایمان والو ! اللہ اور رسول کی دعوت پر لبیک کہو جبکہ وہ تمہیں اس چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے اور خوب جان لو کہ اللہ حائل ہوجاتا ہے آدمی اور اس کے دل کے درمیان اور یاد رکھو کہ اسی کی طرف تم جمع کیے جائو گے
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَادَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ج وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَقَلْبِہٖ وَاَنَّہٗٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ ۔ (الانفال : 24 ) (اے ایمان والو ! اللہ اور رسول کی دعوت پر لبیک کہو جبکہ وہ تمہیں اس چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے اور خوب جان لو کہ اللہ حائل ہوجاتا ہے آدمی اور اس کے دل کے درمیان اور یاد رکھو کہ اسی کی طرف تم جمع کیے جاؤ گے) تین حقائق کا انکشاف اس آیت کریمہ میں تین باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے بلکہ تین حقائق کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔ سب سے پہلی بات جو ایک بہت بڑی حقیقت ہے اور جسے نظر انداز کردینے سے انسان کی بدنصیبی اور اس کی ضلالت میں ہمیشہ اضافہ ہوا ہے 0 وہ بات یہ ہے کہ انسان نے اپنی عقل وخرد سے کام لے کر جن مختلف علوم وفنون کو وجود دیا ہے ان میں سے ایک ایک پر غور کرکے دیکھ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سب کا موضوع اور سب کا ہدف صرف یہ ہے کہ انسانی ضروریاتِ زندگی کو بہتر سے بہتر سے صورت میں اور زیادہ سے زیادہ فراوانی کے ساتھ کس طرح حاصل کیا جائے اور ہر انسان اور انسانوں کے مختلف گروہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ ہم وسائلِ رزق پر زیادہ سے زیادہ کس طرح قبضہ حاصل کرسکیں۔ نفس کی ایک بھوک ہے جسے کہیں سیری نصیب نہیں ہوتی۔ معدے کی ایک آگ ہے جو کسی حد تک بھی بجھنے کا نام نہیں لیتی۔ دل و دماغ کی آرزوئوں اور امنگوں کی ہوس ہے جسے کسی حد پر پہنچ کر بھی قرار نہیں۔ پیٹ کی ضرورتیں، نفس کے تقاضے، حیوانی اور سفلی جذبات کے حصول کے لیے دماغی کاوشیں، ایسا معبود ہیں کہ صبح سے لیکر شام تک بلکہ بعض دفعہ راتوں کو بھی ہر شخص اسی کی پوجا میں لگا ہوا ہے۔ معدہ ایک ایسا کعبہ مقصود بن چکا ہے کہ پوری دنیا اس کے طواف میں مصروف ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مطاف میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ علم وفن کے نام سے انسانی دماغ نے جو کچھ اختراع کیا ہے اس کے ناموں پر نہ جائیے اس کی حقیقت میں اتر کر دیکھئے ہر جگہ آپ کو اسی رویے اور اسی فکر کی کارفرمائی دکھائی دے گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ شکم کی ضرورتوں نے انسانیت کو دبا کر ہر جگہ اپنی حکمرانی قائم کرلی ہے اور دل کی دنیا آہستہ آہستہ مردنی کا شکار ہوتی جارہی ہے کیونکہ انسان جس راستے پر پڑچکا ہے اس کی فکر جو اسلوب اختیار کرچکی ہے اور اس کی تگ وتاز اپنے لیے جو میدان منتخب کرچکی ہے اس کا کوئی راستہ دل کی طرف نہیں جاتا بلکہ سب کے پیش نظر شکم پروری اور شکم پرستی کے سوا کچھ نہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ شکم اور قلب کے تقاضوں میں ایسا بعدالمشرقین ہے کہ یہ دونوں کبھی یکجا نہیں ہوسکتے۔ اقبال نے ٹھیک کہا : دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یاشکم پیغمبر اس کے بالکل برعکس ایک دوسری دعوت لے کر آتے ہیں جس کا موضوع شکم پروری نہیں بلکہ دل کی بیداری ہے۔ وہ انسان کو اس کے خالق ومالک کے وجود کی خبر دیتے ہیں۔ اسے اس حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں کہ تجھے تیرے مالک نے ایک مقصد حیات دے کر پیدا کیا ہے یہ دنیا تیرے لیے میدانِ عمل بنائی گئی ہے اور زندگی مہلت عمل کے لیے بخشی گئی ہے۔ عمل کے اصول و ضوابط اور حسن وقبح کے معیارات سے تیرے مالک نے اپنے رسول بھیج کر اور کتابیں اتار کر تمہیں آگاہ کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات واضح کی ہے کہ تمہارے مالک کے بھیجے ہوئے ضابطہ حیات کے مطابق جو زندگی گزرے گی اسے یہاں بھی بھلائی کا پھل لگے گا اور آخرت میں بھی سرخرو ہوگی۔ لیکن جو زندگی اس ضابطہ حیات کے انکار پر اٹھے گی وہ وقتی طور پر چکا چوند بھی پیدا کرسکتی ہے۔ لیکن اس کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتاکیون کہ اس کی چکا چوند اور دل آویزی جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری کے سوا کچھ نہیں۔ بالآخر ایک وقت آتا ہے جبکہ اہل دنیا خود اس سے تنگ آکر خودکشی کی موت مرتے ہیں یا آپس میں ٹکرا کر ایک دوسرے کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں کیونکہ زندگی کا وہ رویہ جو شکم پروری کے سوا کچھ اور نہیں سکھاتا اور جس نے انسانی اقدار کو جلادینے کی بجائے حیوانی صفات کو عزت واحترام دیا ہے اس کے نتیجے میں بھوک میں تو اضافہ ہوسکتا ہے، آرام و راحت کی طلب تو بڑھ سکتی ہے، درہم و دینار اور عہدہ ومنصب کی ہوس میں تو افزونی ہوسکتی ہے، اپنے منڈیر کو اونچا کرنے کے لیے دوسروں کی عمارتیں گرانے کا شوق تو پیدا ہوسکتا ہے، اپنے آپ کو سب سے بڑا ثابت کرنے اور اپنے ملک کو وسیع کرنے کے لیے ظلم اور ظالمانہ فتوحات کے شوق میں اضافہ تو ہوسکتا ہے لیکن اس سے دل میں وہ رعنائی پیدا نہیں ہوسکتی جو دل کی بیداری کا باعث ہو جس سے بصارت کو بصیرت نصیب ہو جس سے عقل کو وہ نور حاصل ہو جو آفاق وانفس کے اسرار و حقائق سے پردہ اٹھا سکے اور دل کو وہ زندگی نصیب ہو جو تجلیات و انوارِ الہٰی کا مہبط بن سکے۔ یہ دولت صرف اللہ کے نبیوں کی دعوت کے نتیجے میں نصیب میں آتی ہے۔ اس سے وہ دل بیدار پیدا ہوتا ہے جو خالق و مخلوق کے رشتہ کی حقیقت کو جانتا اور جو مخلوق کے آئینہ میں اپنے خالق کی جھلک دیکھ سکتا ہے۔ جس میں ایسی نزاکت پیدا ہوجاتی ہے کہ دوسرے انسان کی معمولی تکلیف اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔ وہ خود دکھ اٹھاکر دوسروں کو سکھ پہنچاتا ہے اور اسی میں راحت محسوس کرتا ہے اور یہی درحقیقت وہ حقیقت ہے جس کے نتیجے میں ایسا انسان وجود میں آتا ہے جس پر خلافتِ ارضی ناز کرتی ہے اور جس کے دامن میں فرشتے نماز پڑھ کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اسی سے فاروقی اور حیدری صفات وجود میں آتی ہیں اور انسانی کائنات کی ایک ایک بگڑی ہوئی کل ٹھیک جگہ پر بیٹھ جاتی ہے۔ اقبال نے ٹھیک کہا ؎ دلِ بیدار فاروقی دل بیدار کراری مسِ آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری دلِ بیدار پیدا کر کہ دل خوابیدہ ہے جب تک نہ تیری ضرب ہے کاری نہ میری ضرب ہے کاری 2 اس آیت کریمہ میں دوسری حقیقت جو منکشف فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ منافقین یا کمزور مسلمانوں کو ایک تنبیہ کی جارہی ہے کہ اللہ کے نبی تمہیں جس حیات بخش پیغام کی طرف بلا رہے ہیں اور تمہارے دلوں کی زندگی کا جو سامان کررہے ہیں یہ مت سمجھو کہ یہ بلاوا اور یہ دعوت مسلسل اسی طرح جاری رہے گی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آسانی اور پھر اتمامِ حجت کے لیے ایک خاص وقت تک اپنے پیغمبر کے ذریعے دعوت کا اہتمام جاری رکھتا ہے۔ پیغمبر دکھ اٹھاکر مخالفین کی مخالفتوں کے باوجود خون کے گھونٹ پی پی کر لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دیتے رہتے ہیں۔ لیکن جب پروردگار محسوس فرماتا ہے کہ انسانوں کی طرف سے اس پیغام کی ناقدری اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے تو پھر وہ زیادہ دیر تک مہلت کو جاری نہیں رکھتا، تنبہیات سے کام لیتا ہے، کبھی جھٹکے بھی دیتا ہے۔ جب یہ ساری کوششیں اکارت جاتی ہیں تو پھر اللہ کا قانون حرکت میں آتا ہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ جب ایک شخص اپنے انکار اور عناد سے یہ ثابت کردیتا ہے کہ مجھے اللہ کے دین اور اللہ کے رسول کی دعوت سے کوئی سروکار نہیں میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اللہ میرا خالق ومالک ہے اور اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ میرے لیے ایک ضابطہ حیات نازل کرے اور میرے لیے لازم ہے کہ میں اس ضابطہ حیات کے مطابق زندگی گزاروں۔ میں ان میں سے ہر بات کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہوں، میں تو من مرضی کی زندگی گزاروں گا۔ مجھے کسی آنے والی زندگی سے کوئی خطرہ نہیں، مجھے کہیں بھی جواب دہی کا اندیشہ نہیں۔ اس پر اللہ کا قانون حرکت میں آتا ہے تو وہ ایسے آدمی سے قبولیتِ حق کی استعداد چھین لیتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے دلوں پر مہر کرنا کہتے ہیں اور اسی کو قرآن کریم نے ” رَین “ قرار دیا ہے۔ انسان کا دل ایک آئینے کی مانند ہے جس کی آب وتاب انسان کے رخ زیبا کے عکس کو منعکس کرتی ہے۔ لیکن آئینے کا یہ انعکاس اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک وہ داغ دھبوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اگر اس کے چہرے پر مسلسل زنگ چڑھتا رہے یا مختلف قسم کے داغ اس کی آب وتاب کو مٹاتے رہیں تو ایک وقت آئے گا جب یہ آئینہ بےنور ہو کر رہ جائے گا۔ اب آپ اس میں دیکھنا چاہیں گے تو وہ موجود ہوتے ہوئے بھی آپ کو کچھ نہ دکھا سکے گا۔ اپنے اسی قانون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے منافقو ! تمہارے پاس ابھی وقت باقی ہے کہ تم اللہ کے رسول کی دعوت پر لبیک کہو اور اپنے دلوں کی دنیا کو آباد کرلو اور اگر تم نے اپنا رویہ نہ بدلا اور تم اپنی روش پر قائم رہے تو پھر یاد رکھو وہ وقت دور نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ تمہارے اور تمہارے دلوں کے درمیان حائل ہوجائے گا یعنی اس کا قانون حائل ہوجائے گا۔ وہ تم سے قبولیت کی استعداد چھین لے گا، تمہارے دلوں کی آب وتاب زنگ آلود کردے گا۔ اس کے بعد کوئی کوشش بھی کامیاب نہ ہوسکے گی۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ تم نے اگر رسول اللہ ﷺ کی دعوت کی ناقدری جاری رکھی اور تم اپنے نفاق سے تائب نہ ہوئے تو یاد رکھو انسانوں کے دل اللہ کی دوانگلیوں میں ہیں وہ جب چاہتا ہے الٹ دیتا ہے۔ ابھی وقت ہے کہ تم دل کی استعداد کو بروئے کار لائو اور ہدایت کی دولت پالو اور اگر اللہ نے تمہارے دلوں کی حالت بدل ڈالی تو پھر تم ہمیشہ کے لیے محروم رہ جاؤ گے۔ نیکی کا خیال معزز مہمان کی مانند ہے ہدایت و ضلالت کا یہ عقدہ تو نہایت نازک موقعہ ہے جو ہاتھ سے چھوٹ گیا تو چھوٹ گیا۔ بزرگانِ دین تو فرماتے ہیں کہ ہر نیکی کے بارے میں ایک مومن کو نہایت محتاط ہونا چاہیے جب نیکی کا کوئی خیال دل میں آتا ہے تو یوں سمجھ لیجئے کہ ایک معزز مہمان آپ کے گھر کے دروازے پر آیا ہے۔ کوئی بھی معزز مہمان اپنی عزت کے معاملے میں نہایت حساس ہوتا ہے اگر میزبان اس کے استقبال میں ذرا بھی سرد مہری کا ثبوت دیتا ہے تو معزز مہمان دروازے ہی سے واپس لوٹ جاتا ہے۔ نیکی کا خیال بھی ایک معزز مہمان کی مانند ہے جیسے ہی آئے تو لپکتے ہوئے اسے تھام لینا چاہیے اور پہلی فرصت میں اس پر عمل کرنا چاہیے اور اگر تساہل سے کام لیا تو یہ آیا ہوا مہمان لوٹ بھی سکتا ہے تو پھر عین ممکن ہے کہ کبھی لوٹ کر نہ آئے۔ 3 آیتِ کریمہ میں تیسری بات جو ایک سخت تنبیہ بھی ہے وہ یہ ہے کہ منافقین سے کہا گیا ہے کہ آج اگر تم اپنے مفادات اور تعلقات میں اندھے ہو کر زندگی بخش پیغام کی بھی قدر نہیں کررہے ہو تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمہیں یہاں ہمیشہ زندہ نہیں رہنا ہے۔ بہت جلد یہ زندگی ختم ہونے والی ہے تو پھر بالآخر تمہیں اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے وہاں تم سب جمع کیے جاؤ گے اور وہاں ہر شخص اپنے اپنے ایمان وعمل کے مطابق اپنا انجام دیکھے گا پھر سوچ لو کہ آج کی یہ بےنیازیاں اس روز کتنی مہنگی ثابت ہوں گی۔ اس وقت عمل یا توبہ کا کوئی موقعہ نہیں ہوگا۔ وہ تو فیصلے کا دن ہے اس دن کا پچھتاوا بہت بڑا پچھتاوا ہے۔ بہتر ہے کہ اس دن کے آنے سے پہلے اپنی حالت کی اصلاح کرلی جائے۔
Top