Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 50
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ یَتَوَفَّى الَّذِیْنَ كَفَرُوا١ۙ الْمَلٰٓئِكَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَ اَدْبَارَهُمْ١ۚ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ
وَلَوْ : اور اگر تَرٰٓي : تو دیکھے اِذْ : جب يَتَوَفَّى : جان نکالتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے يَضْرِبُوْنَ : مارتے ہیں وُجُوْهَهُمْ : ان کے چہرے وَاَدْبَارَهُمْ : اور ان کی پیٹھ (جمع) وَذُوْقُوْا : اور چکھو عَذَابَ : عذاب الْحَرِيْقِ : بھڑکتا ہوا (دوزخ)
اور اگر تم دیکھ پاتے جب روح قبض کرتے ہیں فرشتے ان لوگوں کی جنھوں نے کفر کیا ہے مارتے ہیں ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر (اور یہ کہتے ہیں) اب چکھو مزہ جلنے کے عذاب کا
وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا لا الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَاَدْبَارََھُمْ ج وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ ۔ ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْکُمْ وَاَنَّ اللّٰہَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ ۔ لا (الانفال : 50، 51 ) (اور اگر تم دیکھ پاتے جب روح قبض کرتے ہیں فرشتے ان لوگوں کی جنھوں نے کفر کیا ہے، مارتے ہیں ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر (اور یہ کہتے ہیں) اب چکھو مزہ جلنے کے عذاب کا۔ یہ بدلہ ہے اسی کا جو تم نے آگے بھیجا اپنے ہاتھوں سے اور اللہ بندوں پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا۔ ) جواب شرط کے حذف کا فائدہ وَلَوْ تَرٰٓی میں ” لَوْ “ حرف شرط ہے۔ لیکن اس کا جوابِ شرط آیت میں ذکر نہیں فرمایا گیا۔ اہل بلاغت کا طریقہ یہ ہے کہ جب کسی چیز کے ہولناکی یا اس کے کمال کو بیان کرنا مقصود ہو تو وہاں عموماً جوابِ شرط محذوف کردیا جاتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہے کہ اگر آپ دیکھ لیتے کہ جب کافروں کی جانیں نکالی جاتی ہیں ان کے ساتھ کیا گزرتی ہے تو آپ کو اندازہ ہوتا کہ وہ کس عظیم مصیبت اور ہولناک عذاب سے دوچار ہوتے ہیں۔ لفظوں میں اسے ذکر کرنے کی بجائے اسے محذوف فرما کر اس کی ہولناکی کے منظر کو کہیں زیادہ ہولناک بنادیا ہے۔ مبالغہ فی النفی کا مفہوم آیت کے آخر میں فرمایا : لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ اس کا بظاہر یہ معنی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر زیادہ ظالم نہیں کیونکہ ظَلَّامٍ اسم مبالغہ ہے حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ پروردگار بالکل ظالم نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عربی زبان میں جب مبالغہ پر نفی آتی ہے تو اس سے مبالغہ فی النفی کا مضمون پیدا ہوتا ہے۔ یہاں بھی اس کا مفہوم یہ نہیں کہ وہ بندوں پر زیادہ ظالم نہیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں۔ اب آیت کا مفہوم دیکھئے۔ سیاق کلام دیکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پروردگار یہ فرما رہے ہیں کہ مشرکینِ مکہ کے ساتھ میدانِ بدر میں جو کچھ گزری بظاہر وہ ایسی چوٹ ہے جس کی گہرائی کا اندازہ کرنا آسان نہیں۔ وہ لشکر جسے زعم یہ تھا کہ آج اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا وہ جزیرہ عرب کی سب سے بڑی قوت ہے اسے چند غیر مسلح اور نہتے مسلمانوں نے وہ سبق سکھایا جو ہمیشہ یاد رہے گا۔ ان کی پوری قیادت تہِ تیغ کردی گئی، قیادت کی دوسری صف زنجیروں میں باندھ لی گئی، اس شکست سے پورے عرب میں ان کی طاقت کا بھرم کھل گیا، وہ رسوائی ہوئی کہ الامان والحفیظ۔ لیکن اللہ فرماتا ہے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں اگر تم کہیں اس منظر کو دیکھ لیتے جبکہ جنگ بدر میں قتل ہونے والوں کی جانیں نکالی جارہی تھیں۔ فرشتے کوڑوں اور گرزوں سے ان کے چہروں پر مار رہے تھے اور ان کے کو لہوں پر ضربیں لگا رہے تھے اور جو کچھ ان پر گزر رہی تھی تب شائد آپ کو اندازہ ہوتا کہ ان پر کیا قیامت گزری ہے اور پھر اسی پر بس نہیں ان کو مارتے اور ادھیڑتے ہوئے یہ بھی کہتے تھے کہ موت تو ایک وقتی لمحاتی تکلیف ہے اصل عذاب تو جہنم میں تمہارا انتظار کررہا ہے۔ وہاں کی آگ جو پتھروں کو پگھلادیتی ہے، تمہاری تواضع کے لیے چشم براہ ہے اور یا اس کا مطلب یہ ہے کہ کافر دنیا سے تو گزر ہی جائیں گے، اصل ان کا عذاب دیکھنے کا تو وہ ہے جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں۔ ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر مارتے ہیں اور پھر انھیں جہنم کے عذاب سے ڈراتے ہیں اور یہ انجام ہر کافر کا ہوتا ہے۔ کاش ! تم ان کی اس کیفیت کو دیکھ سکتے تو تمہیں اندازہ ہوتا کہ کس طرح ان پر قیامت سے پہلے قیامت آجاتی ہے اور یہ جو کچھ ان کے ساتھ بیتتی ہے، یہ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم ہوتا ہے بلکہ انھوں نے زندگی بھر جو فصل بوئی اور پروان چڑھائی یہ اسی کا پھل ہے جو ان کو کاٹنا پڑتا ہے۔ یہ انہی کے ہاتھوں کی کمائی ہے جسے وہ مرتے ہوئے سمیٹتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں پر رتی بھر ظلم کا روادار نہیں۔ اس کا قانونِ عدل بےلاگ ہے۔ وہ اپنی ذات میں نہایت رحیم وکریم ہے لیکن اس کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی جیساکرے گا ویسا بھرے گا۔
Top