Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 68
لَوْ لَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِیْمَاۤ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
لَوْ : اگر لَا : نہ كِتٰبٌ : لکھا ہوا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے سَبَقَ : پہلے ہی لَمَسَّكُمْ : تمہیں پہنچتا فِيْمَآ : اس میں جو اَخَذْتُمْ : تم نے لیا عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اگر اللہ کا نوشتہ سبقت نہ کرچکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تمہیں بڑا عذاب پہنچتا۔
لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ ( الانفال : 68) اگر اللہ کا نوشتہ سبقت نہ کرچکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تمہیں بڑا عذاب پہنچتا۔ اس آیت کریمہ میں پروردگار نے مسلمانوں کو سخت تنبیہ فرمائی ہے اور یہ ایسی تنبیہ ہے جو اس کے علاوہ قرآن کریم میں مسلمانوں کو کہیں نہیں فرمائی گئی۔ سوال یہ ہے کہ تنبیہ کس بات پر ہے ؟ دوسری بات اس آیت کریمہ میں یہ ہے کہ مسلمان عذاب عظیم کا شکا رہوجاتے اگر اس سے پہلے اللہ کا نوشتہ نہ لکھا جاچکا ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ یہ نوشتہ کیا ہے ؟ مسلمانوں کو تنبیہہ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے اس کا جواب تو پچھلی آیت کریمہ میں موجود ہے اس میں صاف فرمایا گیا ہے کہ تم دنیا کا سامان چاہتے ہو حالانکہ اللہ آخرت چاہتا ہے۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جو کسی اور قوم سے ہو تو شاید قابل معافی ہو، لیکن مسلمانوں سے اس کا صدور قیامت سے کم نہیں کیونکہ دنیا کا ہر فرد اور ہر قوم دنیا کی مسافر ہے۔ ہر مسافر کے پیش نظر ضروریاتِ زندگی ہی نہیں بلکہ دولت دنیا کا حصول ہے۔ دنیا کی محبت سے آزاد ہوجانا دنیا میں رہ کر ممکن دکھائی نہیں دیتا، اس لیے لوگوں نے ترک دنیا یعنی رہبانیت کا راستہ اختیار کیا۔ جو سراسر انسانی فطرت اور اللہ کی مشیت کے خلاف ہے۔ لیکن اس کے خطرناک نتائج سے کسی کو انکار نہیں اگر دنیا اور آخرت کی طلب میں توازن باقی نہ رہے تو دنیا طلبی انسانی زندگی کا مقصد تبدیل کردیتی ہے۔ اس لیے ازبس ضروری ہے کہ کوئی قوم ایسی اٹھائی جائے جو دنیا سے تعلق کو ضبط میں رکھے۔ وہ اسے زیادہ سے زیادہ ضرورت کا درجہ دے، لیکن ہدف اور منزل آخرت ہو۔ مسلمان اسی کار عظیم کے لیے اٹھائے گئے ہیں، اگر وہ بھی اس صراط مستقیم پر نہ چل سکیں تو پھر ہدایت کا نور بجھ جائے گا۔ انسانی راہنمائی کے لیے کوئی ذریعہ باقی نہ رہے گا۔ اس لیے اس پر سخت تنبیہ فرمائی گئی۔ البتہ ! یہ بات دیکھنے کی ہے کہ مسلمانوں نے جنگ بدر میں کس چیز کو ترجیح دی تھی جسے دنیا طلبی کہا گیا ہے ؟ ہمارے محترم مفسرین نے بعض روایات کے حوالے سے لکھا ہے کہ مال غنیمت تم سے پہلے کسی قوم اور کسی امت کے لیے حلال نہیں تھا۔ بدر کے موقعہ میں جب مسلمان مال غنیمت اکٹھا کرنے میں لگ گئے حالانکہ ابھی تک ان کے لیے مال غنیمت حلال نہیں کیا گیا تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ مال غنیمت کے حلال ہونے کا حکم نازل ہونے سے پہلے مسلمانوں کا یہ اقدام ایسا گناہ تھا کہ اس پر عذاب آجانا چاہیے اسی طرح ابھی تک فدیہ لے کر قیدیوں کو چھوڑنے کا حکم بھی نازل نہیں ہوا تھا۔ اس لیے قیدیوں سے فدیہ لینا ایک طرح سے حدود سے تجاوز کرنا تھا۔ لیکن اس بات پر ایک اعتراض ہوتا ہے کہ اگر مال غنیمت یا فدیہ لینا حلال نہیں تھا یا اس کی حلّت کا حکم نازل نہیں ہوا تھا تو آنحضرت ﷺ اور جلیل القدر صحابہ ( رض) نے اس کا فیصلہ کیسے فرمالیا ؟ نوشتہ سے مراد جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ وہ نوشتہ کیا تھا جس کی وجہ سے عذاب ٹل گیا ؟ ہمارے قدیم مفسرین کا خیال ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ حکم ہے جو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے کہ اس امت کے لیے مال غنیمت حلال کیا جائے گا اور وہ حکم عنقریب نازل ہونے ہی والا تھا۔ اس حکم کی وجہ سے مسلمانوں سے عذاب ٹال دیا گیا۔ ایک دوسری تحقیق صاحب تفہیم القرآن کی ہے وہ لکھتے ہیں : (میرے نزدیک اس مقام کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ جنگ بدر سے پہلے سورة محمد میں جنگ کے متعلق جو ابتدائی ہدایات دی گئی تھیں ان میں یہ ارشاد ہوا تھا کہ : فَاِذَا لَقِیْتُمُُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ ط حَتّٰیٓ اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْ ھُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ قلا فَاِمَّا مَنًّام بَعْدُ وَاِمَّا فِدَآئً حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَھَا 5 ج (محمد : 4 ) اس ارشاد میں جنگی قیدیوں سے فدیہ وصول کرنے کی اجازت تو دے دی گئی تھی لیکن اس کے ساتھ شرط یہ لگائی گئی تھی کہ پہلے دشمن کی طاقت کو اچھی طرح کچل دیا جائے پھر قیدی پکڑنے کی فکر کی جائے۔ اس فرمان کی رو سے مسلمانوں نے بدر میں جو قیدی گرفتار کیے اور اس کے بعد جو ان سے فدیہ وصول کیا وہ تھا تو اجازت کے مطابق مگر غلطی یہ ہوئی کہ ” دشمن کی طاقت کو کچل دینے “ کی جو شرط مقدم رکھی گئی تھی اسے پورا کرنے میں کوتاہی کی گئی۔ جنگ میں جب قریش کی فوج بھاگ نکلی تو مسلمانوں کا ایک بڑا گروہ غنیمت کو لوٹنے اور کفار کے آدمیوں کو پکڑپکڑ کر باندھنے میں لگ گیا اور بہت کم آدمیوں نے دشمنوں کا تعاقب کیا حالانکہ اگر مسلمان پوری طاقت سے ان کا تعاقب کرتے توقریش کی طاقت کا اسی روز خاتمہ ہوگیا ہوتا۔ اسی پر اللہ تعالیٰ عتاب فرمارہا ہے اور یہ عتاب نبی ﷺ پر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں پر ہے۔ فرمانِ مبارک کا منشا یہ ہے کہ ” تم لوگ ابھی نبی کے مشن کو اچھی طرح نہیں سمجھے ہو نبی کا اصل کام یہ نہیں ہے کہ فدیے اور غنائم وصول کرکے خزانے بھرے بلکہ اس کے نصب العین سے جو چیز براہ راست تعلق رکھتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ کفر کی طاقت ٹوٹ جائے۔ مگر تم لوگوں پر باربار دنیا کا لالچ غالب ہوجاتا ہے پہلے دشمن کی اصل طاقت کے بجائے قافلے پر حملہ کرنا چاہا پھر دشمن کا سرکچلنے کے بجائے غنیمت لوٹنے اور قیدی پکڑنے میں لگ گئے پھر غنیمت پر جھگڑنے لگے۔ اگر ہم پہلے فدیہ وصول کرنے کی اجازت نہ دے چکے ہوتے تو اس پر تمہیں سخت سزا دیتے۔ خیر اب جو کچھ تم نے لیا ہے وہ کھالومگر آئندہ ایسی روش سے بچتے رہو جو اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے “۔ میں اس رائے پر پہنچ چکا تھا کہ امام جصاص کی کتاب احکام القرآن میں یہ دیکھ کر مجھے مزید اطمینان حاصل ہوا کہ امام موصوف بھی اس تاویل کو کم ازکم قابل لحاظ ضرور قرار دیتے ہیں پھر سیرت ابن ہشام میں یہ روایت نظر سے گزری کہ جس وقت مجاہدینِ اسلام مال غنیمت لوٹنے اور کفار کے آدمیوں کو پکڑ پکڑکر باندھنے میں لگے ہوئے تھے نبی ﷺ نے دیکھا کہ حضرت سعد بن معاذ ( رض) کے چہرے پر کچھ کراہت کے آثار ہیں۔ حضور نے ان سے دریافت فرمایا کہ ” اسے سعد ! معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی یہ کارروائی تمہیں پسند نہیں آرہی ہے۔ “ انھوں نے عرض کیا ” جی ہاں یارسول اللہ ! یہ پہلا معرکہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل شرک کو شکست دلوائی ہے “ اس موقع پر انھیں قیدی بنا کر ان کی جانیں بچالینے سے زیادہ بہتر یہ تھا کہ ان کو خوب کچل ڈالا جاتا۔ (جلد 2۔ صفحہ 28۔ 281) اس ناچیز کے خیال میں دونوں تحقیقات میں کوئی بنیادی فرق نہیں صرف تعبیر کا اختلاف ہے۔ صاحب تفہیم القرآن اصل کوتاہی اثخان فی الارض میں کوتاہی کو قرار دیتے ہیں اور جمہور مفسرین مال غنیمت اور فدیہ یعنی دنیا کا مال لینے کو اصل غلطی سمجھتے ہیں اور دوسری یہ بات کہ صاحب تفہیم القرآن کی تحقیق کا دارومدار ” سورة محمد “ کی آیت پر ہے۔ لیکن اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ ” سورة محمد “ کو ” سورة الانفال “ پر مقدم مانا جائے جبکہ اہل علم میں اس معاملے میں اختلاف ہے کہ دونوں سورتوں میں نزول کے اعتبار سے تقدم کسے حاصل ہے۔
Top