Ruh-ul-Quran - Al-Ghaashiya : 12
فِیْهَا عَیْنٌ جَارِیَةٌۘ
فِيْهَا : اس میں عَيْنٌ جَارِيَةٌ : چشمہ بہتا ہوا
اس میں چشمے رواں ہوں گے
فِیْھَا عَیْنٌ جَارِیَۃٌ۔ فِیْھَا سُرُرٌ مَّرْفُوْعَۃٌ۔ وَّاَکْوَابٌ مَّوْضُوْعَۃٌ۔ وَّنَمَارِقُ مَصْفُوْفَۃٌ۔ وَّزَرَابِیُّ مَبْثُوْثَـۃٌ۔ (الغاشیۃ : 12 تا 16) (اس میں چشمے رواں ہوں گے۔ اس کے اندر اونچی مسندیں ہوں گی۔ آبخورے قرینے سے رکھے ہوں گے۔ اور گائو تکیوں کی قطاریں لگی ہوں گی۔ اور نفیس فرش بچھے ہوئے ہوں گے۔ ) اہلِ جنت کی آرائش وزیبائش کی تصویر اہلِ جنت جس طرح کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوں گے اور جیسی لطف و لذت سے بھرپور نعمتوں سے محظوظ ہوں گے ان میں سے چند ایک کو بیان فرمایا گیا ہے۔ سب سے پہلی جو چیز بیان فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس میں ایک رواں چشمہ ہوگا، یعنی ایسا چشمہ جو ہر وقت ابلے گا اور بہے گا۔ اور اگر اسے اسم جنس مانا جائے تو پھر مراد یہ ہے کہ جنت کے سرسبز لانوں میں یا اس کے اندر سے گزرتی ہوئی نہروں میں جابجا چشمے ابلتے ہوں گے۔ ممکن ہے اس سے باغ کی سیرابی کا بھی کام لیا جاتا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ صرف منظر کی خوبصورتی میں اضافے کے لیے جابجا پھیلا دیئے گئے ہوں۔ ہم اس زمین پر بھی خوبصورت باغوں کو دیکھتے ہیں کہ ان کی گزرگاہوں میں چشمے ابلتے اچھلتے دکھائی دیتے ہیں اور یا ان میں ایسے حوض بنائے گئے ہیں جن کے کناروں پر چشمے ابل رہے ہیں اور ان کی وجہ سے منظر کی خوبصورتی میں بیش بہا اضافہ ہوجاتا ہے۔ سورة دہر میں ایک سے زیادہ چشموں کا ذکر ہے۔ پھر ان سے نکلتی ہوئی متعدد شاخوں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ اسی کو سمیٹ کر یہاں واحد کے لفظ سے ان کا ذکر کیا جارہا ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے ہر چشمہ اپنے اندر ایک انفرادیت رکھتا ہو۔ اس میں سے ابلتے ہوئے پانی کی خصوصیات، اس کا مزہ، اس کی شیرینی ہر ایک کی دوسرے سے مختلف ہو۔ اور شاید اسی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے پروردگار نے کہیں اسے واحد کے طور پر ذکر فرمایا اور کہیں جمع کے طور پر۔ اس کے بعد اہل جنت کے مساکن اور ان کی رہائش گاہوں میں جو سامانِ آرائش و زیبائش رکھا گیا ہے اس کی کچھ تفصیل بیان کی جارہی ہے۔ اور یہ تفصیل صرف اسی سورة میں نہیں اور بھی متعدد سورتوں میں مختلف الفاظ میں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ کہیں اجمال سے کام لیا گیا ہے اور کہیں تفصیل سے۔ بعض مقامات پر ہم ان عطا کردہ نعمتوں میں کچھ تفاوت بھی پاتے ہیں، لیکن یہ تضاد کی قسم کی چیز نہیں بلکہ اس کا تعلق اہل جنت کے درجات و مراتب سے ہے۔ کیونکہ ایمان و عمل کے اعتبار سے اہل جنت برابر نہیں ہوں گے۔ اور اسی لحاظ سے ان کے جنت میں مدارج بھی ہوں گے۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک اعلیٰ درجے کے جنتی کو وہی کچھ دیا جائے جو عام جنتی کو دیا جائے گا۔ البتہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ہر جنتی کو جو نعمتیں ملیں گی دنیا میں اس کا تصور بھی محال ہے۔ لیکن باایں ہمہ اہل جنت میں مرتبے اور بخشش کے لحاظ سے یقینا مختلف مدارج کا فرق ہوگا۔ ایک اور بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے وہ یہ کہ جنت اور اس کی نعمتیں عالم غیب کی حقیقتیں ہیں جن کا صحیح ادراک اس دنیا میں ممکن نہیں۔ اس لیے بالعموم انھیں تمثیل کے انداز میں بیان فرمایا گیا ہے۔ اور ان کے لیے وہی الفاظ مستعار لیے گئے ہیں جو انھیں قریب الفہم بنا سکتے ہیں۔ حقیقی تعبیر ہمارے الفاظ میں ممکن نہیں۔ اہلِ جنت کے سامانِ آرائش و زیبائش میں سب سے پہلے جس چیز کو بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اہل جنت عام لوگوں کی طرح نہیں بلکہ بلند پایہ لوگوں کی طرح بڑی بلند مسندوں پر فائز ہوں گے۔ اسی کا ترجمہ تخت بھی کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ بادشاہ تخت پر فروکش ہوتے ہیں اور یہ ان کی عظمت کی علامت ہے۔ اس سے مقصود صرف اہل جنت کے عزوشرف کو نمایاں کرنا ہے۔ ورنہ جہاں تک آرائش و زیبائش یا نشست گاہوں کی حیثیت کا تعلق ہے اس کی تشکیل اور اس کی آراستگی ہر جنتی کے اپنے ذوق اور چاہت کے مطابق ہوگی۔ وَاَکْوَابٌ مَّوْضُوْعَۃٌ … اکواب، کو ب کی جمع ہے۔ آپ اس کا ترجمہ پیالے سے بھی کرسکتے ہیں، آبخورے سے بھی اور جام سے بھی۔ اور مَوْضُوْعَۃٌ کا معنی ہے قرینے سے رکھے ہوئے۔ مطلب یہ ہے کہ اہل جنت کے مشروبات مختلف قسموں کے ہوں گے اور ہر مشروب کے ساتھ مناسب جام رکھا جائے گا۔ اس کی ساخت مشروب کے مطابق ہوگی اور وہ مشروب کے اتنا قریب ہوگا کہ کسی جنتی کو اسے حاصل کرنے میں اکتاہٹ نہیں ہوگی۔ اور پھر ان کی ترتیب میں ایسے قرینے سے کام لیا گیا ہوگا جس سے خوبصورتی میں اور اضافہ ہوجائے گا۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اس سے آداب معاشرت کے ایک اہم باب کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ وہ یہ کہ پانی پینے کے برتن پانی کے قریب مقررہ جگہ پر رہنے چاہئیں۔ وہاں سے ادھر ادھر ہوجائیں اور پانی پینے کے وقت تلاش کرنا پڑے یہ تکلیف کی چیز ہے۔ اس لیے ہر شخص کو اس کا اہتمام چاہیے کہ ایسی استعمالی چیزیں جو سب گھر والوں کے کام میں آتی ہیں اور ان کی جگہ مقرر ہوتی ہے۔ استعمال کے بعد انھیں مقرر جگہ پر رکھنا چاہیے تاکہ دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے۔ وَنَمَارِقُ مَصْفُوْفَۃٌ … نمارق، نمرق کی جمع ہے۔ اس کا اطلاق قالینوں اور غالیچوں پر بھی ہوتا ہے اور گائو تکیوں پر بھی۔ اور مَصْفُوْفَۃٌ کا مطلب یہ ہے کہ ایک ترتیب اور قرینے کے ساتھ قطاروں میں گائو تکیے لگے ہوئے ہوں گے۔ بیٹھنے والا جہاں بھی بیٹھے وہ اس کے لیے آسائش کا باعث ہوں گے۔ اہل عرب میں چونکہ فرشی نشست ہوتی تھی اس لیے زمین پر قالین اور پشت پر گائو تکیے لگائے جاتے تھے۔ انھیں کے ذوق کے مطابق جنت کی نعمتوں کو تعبیر دی گئی ہے۔ مرورِزمانہ کے ساتھ ساتھ تہذیب اور معاشرت بدلتی رہتی ہے۔ اٹھنے بیٹھنے کے آداب اور طریقے بھی بدل جاتے ہیں۔ آج چونکہ صوفوں کا دور ہے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان پر گدیاں اور تکیے لگے ہوئے ہوں گے۔ وَزَرَابِیُّ مَبْثُوْثَـۃٌ … زرابی، زربیۃ کی جمع ہے۔ یہ نہالچوں کو بھی کہتے ہیں اور تکیوں کو بھی۔ اور بعض اہل لغت اس سے مخمل کے نہالچے مراد لیتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اہل جنت کے بیٹھنے اور لیٹنے کے لیے نہایت قیمتی فرش بچھے ہوئے ہوں گے۔
Top