بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Ghaashiya : 1
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَةِؕ
هَلْ : کیا اَتٰىكَ : تمہارے پاس آئی حَدِيْثُ : بات الْغَاشِيَةِ : ڈھانپنے والی
کیا تمہیں چھا جانے والی آفت کی خبر پہنچی ہے۔
ھَلْ اَتٰـکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ ۔ (الغاشیۃ : 1) (کیا تمہیں چھا جانے والی آفت کی خبر پہنچی ہے۔ ) قیامت اور احوالِ قیامت کی تصویر یہاں ضمیر واحد سے خطاب آنحضرت ﷺ کو بھی ہوسکتا ہے اور ہر مخاطب کو بھی۔ آنحضرت ﷺ کو اگر خطاب مانا جائے تو تب بھی روئے سخن کفار ہی کی طرف ہے جو قیامت کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اور اگر ہر فرد کو اس کا مخاطب سمجھا جائے تو پھر براہ راست منکرینِ قیامت سے خطاب ہے۔ مقصود دونوں صورتوں میں سوال کا جواب طلب کرنا نہیں بلکہ قیامت کی عظمت و شان کا اظہار اور اس کی ہیبت کو نمایاں کرنا ہے۔ غَاشِیَۃ کے معنی ڈھانک لینے والی اور چھا جانے والی کے ہیں۔ یہاں یہ لفظ قیامت کی صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ غَاشِیَہ کے لفظ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ قیامت بپا ہوتے ہی ایک آفت کی طرح سارے جہان پر چھا جائے گی۔ اس میں نظام عالم کے درہم برہم ہوجانے اور پھر نئے نظام کے بپا ہونے، تمام انسانوں کے دوبارہ اٹھنے اور اللہ تعالیٰ کی عدالت سے جزاء و سزا پانے تک تمام مراحل مراد ہیں۔ اس پوری مدت میں انسان اس کے خیال سے فارغ ہو کر کسی اور طرف متوجہ نہیں ہوسکے گا، بلکہ یہ بری طرح انسانی خیالات، تصورات اور گردوپیش کے ماحول پر چھائی ہوئی ہوگی۔
Top