Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 28
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا١ۚ وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۤ اِنْ شَآءَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: جو لوگ ایمان لائے (مومن)
اِنَّمَا
: اس کے سوا نہیں
الْمُشْرِكُوْنَ
: مشرک (جمع)
نَجَسٌ
: پلید
فَلَا يَقْرَبُوا
: لہٰذا وہ قریب نہ جائیں
الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ
: مسجد حرام
بَعْدَ
: بعد
عَامِهِمْ
: سال
هٰذَا
: اس
وَاِنْ
: اور اگر
خِفْتُمْ
: تمہیں ڈر ہو
عَيْلَةً
: محتاجی
فَسَوْفَ
: تو جلد
يُغْنِيْكُمُ
: تمہیں غنی کردے گا
اللّٰهُ
: اللہ
مِنْ
: سے
فَضْلِهٖٓ
: اپنا فضل
اِنْ
: بیشک
شَآءَ
: اللہ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
اے ایمان والو ! بلاشبہ مشرکین بالکل پلید ہیں پس یہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی پھٹکنے نہ پائیں اور اگر تمہیں اندیشہ ہو معاشی بدحالی کا تو اللہ اگر چاہے تو تمہیں اپنے فضل سے مستغنی کردے گا۔ بیشک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُْوا الْمَسْجِدَالْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا ج وَاِنْ خِفْتُمْ عَیْلَۃً فَسَوْفَ یُغْنِیْکُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ اِنْ شَآئَطاِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ( التوبۃ : 28) (اے ایمان والو ! بلاشبہ مشرکین بالکل پلید ہیں پس یہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی پھٹکنے نہ پائیں اور اگر تمہیں اندیشہ ہومعاشی بدحالی کا تو اللہ اگر چاہے تو تمہیں اپنے فضل سے مستغنی کردے گا بیشک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ ) مشرکین کے بارے میں آخری ہدایت سورة توبہ کے آغاز سے جو براءت کا مضمون شروع ہوا تھا اور مشرکین کے سامنے اس حوالے سے جو اعلانات کیے گئے تھے یہ ان سب کی آخری کڑی ہے۔ فتح مکہ کے بعد اگرچہ حرم کا اقتدار اور مسجد حرام کی تولیت اور بیت اللہ کی آبادی مسلمانوں کے ہاتھوں میں آگئی تھی اور مسلمان ہر لحاظ سے صاحب اختیار تھے۔ لیکن مشرکین کو بھی مسجد حرام میں آنے جانے اور اپنے مذہبی اعمال ادا کرنے کی آزادی تھی۔ فتح مکہ اور اس اعلان کے دوران آٹھ اور نو ہجری کے دو موسم ِ حج گزرے اور دونوں میں مشرکین نے اپنے طریقے سے حج اور عمرہ کے مناسک ادا کیے اور کسی جگہ بھی انھیں کسی بات سے روکا نہیں گیا۔ لیکن سورة توبہ کی متعلقہ آیات کے بعد ان پر جہاں اور پابندیاں لگائی گئیں وہاں اس آیت کریمہ کے حوالے سے حرم کی حدود میں ان کا داخلہ بالکل بند کردیا گیا اور یہ داخلہ صرف مذہبی مناسک کی ادائیگی کے لیے ہی بند نہیں کیا گیا بلکہ امام شافعی کے فتویٰ کے مطابق مکمل طور پر انھیں حرم کی حدود میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ ایک بات یہاں سمجھ لینی چاہیے کہ حرم کی حدود میں داخل ہونے پر پابندی صرف مشرکین کے لیے نہیں بلکہ تمام غیر مسلموں کے لیے ہے چاہے وہ اہل کتاب ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن حرم کے علاوہ عرب کی حدود میں اگر اسلامی حکومت اجازت دے تو مشرکین اور دیگر غیر مسلم رہ سکتے یا اپنا کاروبار کرسکتے ہیں۔ لیکن جہاں تک مشرکینِ عرب کا تعلق ہے ان پر حجت تمام ہوجانے کی وجہ سے جزیرہ عرب میں ان کا قیام ممنوع قرار دے دیا گیا۔ چناچہ آج بھی سعودی حکومت کے تمام شہروں میں ہر طرح کے غیر مسلم پائے جاتے ہیں جو ملازمتیں بھی کررہے ہیں اور اپنے کاروبار بھی۔ لیکن جہاں تک مکہ معظمہ کا تعلق ہے وہاں کسی غیر مسلم کو جانے کی اجازت نہیں دی جاتی کیونکہ حرم، ملتِ ابراہیمی کے تقدس کی مرکزیت اور اللہ کے گھر کی عظمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہاں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ ہو۔ کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت اور ذکر نہ کرے اور نہ وہ مذہبی رسوم بجالائے جنھیں مشرکانہ رسوم کہا جاتا ہے۔ وہاں سراسر اللہ کی توحید کا غلبہ ہو اور وہاں صرف عبادت ہی میں نہیں بلکہ کاروبار، سیاست اور حکومت میں بھی اس بات کا اظہار ہو کہ یہاں اللہ کے سوا کسی اور کی حکومت نہیں تاکہ دنیائے اسلام اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود مرکز اسلام کو اپنا نمونہ سمجھ کر اپنے اپنے ملکوں کو اس کا پرتو بنانے کی کوشش کرے۔ سعودی حکومت اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود اللہ کا شکر ہے کہ وہاں نہ کسی غیر مسلم کو داخل ہونے دیتی ہے اور نہ حتی الامکان کسی قسم کے شرک کو برداشت کرتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ شاہ سعود کے زمانے میں ہندوستان کا وزیر اعظم جو اہرلال نہرو سعودی حکومت کے دورے پر گیا اس کی بڑی آئو بھگت کی گئی اور اسے رسول السلام کا خطاب دیا گیا تھا۔ جدہ پہنچ کر جواہر لال نے شاہ سعود سے کہا کہ میں اللہ کا گھر دیکھنا چاہتا ہوں۔ آپ مجھے مکہ معظمہ لے چلیں۔ شاہ سعود نے تمام تر سیاسی تعلقات کو ایک طرف رکھتے ہوئے صاف صاف اعتراف کیا کہ مکہ معظمہ میں میری حکومت نہیں، وہاں صرف اللہ کی حکومت ہے اس لیے وہاں کسی غیر مسلم کو جانے کی اجازت نہیں دی۔ اس لیے میں آپ کو وہاں لے جانے سے معذور ہوں۔ آیتِ کریمہ میں مشرکوں کو نجس قرار دیا گیا ہے۔ نجس سے مراد یہ ہے کہ ان میں عقائد، اخلاق، آداب اور ہر طرح کے معاملات کی خرابی پائی جاتی ہے۔ ہر طرح کی آلودگی اور گندگی ان کے کردار میں پیدا ہوچکی ہے۔ حرم جس طرح خالص توحید کا مرکز ہے اسی طرح وہ خالص بندگی، دیانت وامانت، مکارمِ اخلاق اور معاملات میں اللہ سے ڈر کا پیغام بھی ہے۔ جو لوگ اس کے برعکس آلودگیاں اپنے اندر رکھتے ہیں وہ اگر ایسی صاف ستھری جگہ اور ایسے مہذب لوگوں میں آکر رہیں گے تو یقینا اپنی بد کرداری اور بد معاملگی کا تعفن پھیلائیں گے۔ اور اسے حرم کی حدود میں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے کسی شاعر نے کہا تھا ؎ چوں کفر از کعبہ برخیزر کجا ماند مسلمانی آیت کے دوسرے حصے میں ایک اور بات کی طرف بھی اشارہ ہے جس کا تعلق مسلمانوں کے امتحان سے ہے۔ مشرکین کا اللہ کے گھر سے روکا جانا یقینا مشرکین کے لیے ایک بہت بڑی ابتلا تھا کیونکہ وہ اللہ کے گھر کے ساتھ صدیوں سے عقیدت رکھتے تھے اور اپنی تمام تر گمراہیوں کے باوجود اپنے آپ کو اس گھر سے وابستہ سمجھتے تھے۔ لیکن مسلمانوں کے لیے بھی یہ پابندیاں امتحان سے کم نہ تھیں کیونکہ ابھی تک جزیرہ عرب میں مشرکین کی بہت بڑی تعداد پائی جاتی تھی اور ان کا معمول یہ تھا کہ اشھرحج میں وہ نہ صرف حج کے لیے آتے تھے بلکہ یہی مہینے ان کی تجارت کے لیے بھی تھے۔ حج ان کی مذہبی عبادت تھی لیکن یہی حج تجارت اور کاروبار کا بہت بڑا ذریعہ بن گیا تھا چونکہ ان مہینوں میں کوئی قافلہ لوٹا نہیں جاتا تھا اور کوئی کسی کو روکنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ اس لیے لوگ آزادانہ بغیر کسی خوف کے جس طرح قربانی کے جانور اپنے ساتھ لاتے تھے اسی طرح تجارت کا مال بھی بہت بڑی تعدار میں اپنے ساتھ لے کر آتے تھے، اونٹ لدے ہوئے آتے تھے۔ باہر کا مال مکہ میں پہنچتا اور مکہ کی چیزیں باہر کے تاجر خرید کرلے جاتے۔ ایامِ حج میں منیٰ اور عرفہ اور سوق عکاظ تجارت کے مرکز بن جاتے۔ وہاں ہر طرح کی چیز دستیاب ہوتی۔ مکہ کے رہنے والے اپنے شہر میں ہوتے ہوئے سال بھر کی روزی کما لیتے تھے۔ مشرکین انھیں فتوحات بھی دیتے کیونکہ وہ انھیں بیت اللہ کا مجاور اور پروہت سمجھتے تھے اور ساتھ ہی قریش چونکہ بہت بڑے تاجر بھی تھے اس لیے وہ تجارت سے خوب نفع کماتے۔ چناچہ جب مشرکین پر حرم کی حدود میں داخل ہونے پر پابندی لگائی گئی تو مسلمانوں کو فکر لاحق ہوئی کہ ہمارے کاروبار ہماری تجارت بلکہ ہماری معاشی ضرورتوں کا کیا بنے گا ؟ ابھی تک جزیرہ عرب میں مشرکین کی ایک بہت بڑی تعداد پائی جاتی تھی۔ وہ اگر حج کے لیے نہیں آئیں گے تو ہماری تجارت پر ناگوار اثر پڑے گا اور ہم معاشی طور پر تباہ ہو کر رہ جائیں گے۔ پروردگار نے اس کے جواب میں صرف ایک جملہ ارشاد فرمایا۔ حیرانی کی بات ہے کہ اس میں کسی پیکج کا اعلان نہیں، کوئی مراعات دینے کا وعدہ نہیں صرف یہ فرمایا وَاِنْ خِفْتُمْ عَیْلَۃً فَسَوْفَ یُغْنِیْکُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖٓ اِنْ شَآئَ ط کہ اگر تمہیں اندیشہ ہے معاشی بدحالی یا تنگدستی کا تو اللہ اگر چاہے گا تو اپنے فضل و کرم سے تمہیں مستغنی کردے گا اور یہ بات تو جانی پہچانی تھی کہ پروردگار تو جانوروں تک کا رزق اپنے ذمہ لے چکا ہے مسلمان تو سراسر اس کے فوجدار ہیں۔ اسی کے لیے جیتے اور مرتے ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انھیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑدے۔ چناچہ اس جملے کے نازل ہوتے ہی مسلمانوں کے چہروں پر اطمینان کی بہار چھاگئی۔ انھیں یقین ہوگیا کہ جب اللہ نے ہماری تنگدستی دور کرنے کا وعدہ کرلیا ہے تو اس میں کسی طرح کے تخلف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چناچہ نو ہجری کے بعد تاریخ کا طالب علم اس بات سے بیخبر نہیں کہ مسلمان جہاں جہاں بھی آباد تھے ان کی حالت سنورنا شروع ہوگئی۔ فتوحات کا دروازہ کھل گیا۔ مصر وشام اور روم وایران کے خزانے اونٹوں پر لد لد کر اسلام کے بیت المال میں پہنچنے لگے۔ مسلمان اپنی زکوٰۃ کا مال جھولیوں میں ڈال کرلینے والوں کو تلاش کرتے تھے، لیکن کوئی ملتا نہیں تھا جنھیں یاد دلاتے کہ آپ نے گزشتہ سال مجھ سے زکوٰۃ وصول کی تھی تو وہ جواب میں کہتے کہ اس سال تو میں خود صاحب نصاب ہوگیا ہوں۔ کاش ! امت مسلمہ اس حقیقت پر غور کرے کہ عرب جیسی سرزمین میں مسلمانوں کی نئی ریاست قائم ہوتی ہے، جن کا اپنا بیت المال تک نہیں۔ ایمان کی دولت کے سوا ان کے پاس آمدنی کے کوئی ذرائع نہیں۔ مکہ کی سرزمین ایک پتی تک نہیں اگاتی، ان کا تمام گزر بسر تجارت پر ہے۔ مسلمانوں کے پاس جہاد و قتال کی مصروفیات کے باعث تجارت کے لیے کوئی وقت نہیں۔ حج کے موقع پر آنے والے حاجیوں کی وجہ سے جو تجارت ہورہی تھی اسے ان مشرکین پر پابندی لگا کر ختم کردیا گیا ہے۔ مکہ معظمہ کے رہنے والے مسلمان اس پابندی کی وجہ سے بجا طور پر پریشان ہیں کہ ہمارے پاس گزر بسر کا ایک ہی ذریعہ تھا وہ بھی روک دیا گیا۔ ان کے اطمینان کے لیے ایک جملہ نازل ہوتا ہے جس میں انھیں مستغنی کرنے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ مسلمان اس وعدے پر کھل اٹھتے ہیں اور کوئی بھی پلٹ کر نہیں پوچھتا کہ یہ استغنا کہاں سے آئے گا ؟ تجارت کا ذریعہ تو ختم ہوگیا اب یہ مالداری اور دولت مندی کہاں سے پھوٹے گی ؟ لیکن وہ لوگ چونکہ اللہ کے وعدے پر یقین کرنے والے لوگ تھے اور وہ جانتے تھے کہ رزق کے خزانے اللہ کے ہاتھ میں ہیں یہ تجارت یا زراعت بظاہر وسائل ہیں حقیقت نہیں ہیں۔ حقیقت صرف اتنی ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے اس کے رزق میں وسعت عطا کردیتا ہے۔ چناچہ جیسے میں عرض کرچکا ہوں مؤرخ آج تک گواہی دے رہے ہیں کہ اس کے بعد مکہ والوں نے تنگدستی نہیں دیکھی۔ ہم پر بھی اللہ نے اس وعدے کے ساتھ سود حرام کیا ہے کہ اگر تم سود پر پابندی لگادوگے تو ہم تمہارے رزق میں اضافہ کردیں گے اور اگر تم سود سے نہیں رکو گے تو پھر سمجھ لو کہ تم اللہ اور اس کے رسول سے اعلانِ جنگ کررہے ہو اور یہ بھی بار بار فرمایا کہ اگر تم اللہ کے دین کو نافذ کردو گے تو ہم آسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیں گے۔ اوپر سے رزق برسے گا اور نیچے سے ابلے گا۔ لیکن ہمیں اللہ کے کسی وعدے پر اعتبار نہیں۔ نتیجہ سامنے ہے کہ ہم سالہا سال سے اپنی مالی حالت بہتر کرنے اور رزق کے وسائل کو ترقی دینے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیل رہے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے اپنی عزت وافتخار اور قومی خودداری کو بھی دائو پر لگادیا ہے۔ لیکن حال ہمارا یہ ہے کہ : منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
Top