Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 44
لَا یَسْتَاْذِنُكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ
لَا يَسْتَاْذِنُكَ : نہیں مانگتے آپ سے رخصت الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت اَنْ : کہ يُّجَاهِدُوْا : وہ جہاد کریں بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنین جان (جمع) وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : خوب جانتا ہے بِالْمُتَّقِيْنَ : متقیوں کو
وہ کبھی آپ سے اجازت طلب نہیں کریں گے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے سے جہاد نہ کریں۔ اللہ اپنے متقی بندوں کو خوب جاننے والا ہے۔
لَایَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ یُؤمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاھِدُوْ بِاَمْوالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْطوَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالْمُتَّقِیْنَ اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُھُمْ فَھُمْ فِیْ رَیْبِھِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ (التوبۃ : 44، 45) (وہ کبھی آپ سے اجازت طلب نہیں کریں گے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں کہ وہ اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد نہ کریں اللہ اپنے متقی بندوں کو خوب جاننے والا ہے۔ رخصت مانگنے کے لیے تو وہی آتے ہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جن کے دل شک میں مبتلا ہیں اور وہ اپنے شک میں متردد ہیں۔ ) منافق کی ایک علامت منافقین کی قرآن وسنت میں بہت سی علامتیں بیان فرمائی گئیں ہیں، جن کا تعلق ان کی عبادات سے بھی ہے اور ان کے معاملات سے بھی۔ لیکن دشمن کے مقابلے میں جہاد و قتال کے لیے نکلنے کے اعتبار سے اس آیت کریمہ میں ایک واضح علامت بیان فرمائی گئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ جس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول پر مکمل ایمان موجود ہے اور وہ آخرت کے دن کا یقین رکھتا ہے اور وہ اس بات کو یقینی سمجھتا ہے کہ قیامت آئے گی اور اللہ کے حضور حاضری ہوگی، وہاں ایک ایک عمل کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ خاص طور پر حق و باطل کی کشمکش میں حق کی سربلندی اور باطل کو سرنگوں کرنے کے لیے نکلنے کا جب وقت آئے ایسے وقت میں جان وتن کی قربانی کی بجائے زندگی بچانے کے لیے پیچھے رہنا ایک ایسا جرم ہے جس کی قیامت کے دن سخت باز پرس ہوگی کیونکہ ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والا درحقیقت کفر کو سربلند اور اسلام کو سرنگوں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے جسے بھی اللہ نے ایمان کی دولت بخشی ہے اس سے اعمال کی کوتاہیوں کا صدور تو ممکن ہے لیکن جہاد و قتال کے فرض ہوجانے کے بعد پہلو تہی کسی طرح ممکن نہیں۔ اس لیے یہاں بطور علامت کے بیان فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ آپ کے پاس جنگ میں شریک نہ ہونے کے عذر پیش کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ وہ جانتے ہیں کہغزوہ تبوک ایک ایسا غزوہ ہے جس میں شرکت ہر مومن کے لیے فرضِ عین ہے۔ فرضِ عین کی ادائیگی میں جھوٹے عذرات کو سہارا بنانا کسی مخلص مومن کا کام نہیں ہوسکتا۔ ایسا تو وہی لوگ کرسکتے ہیں جو ایمان کی دولت سے محروم ہیں اور جن کے دلوں میں ابھی تک ایمان نہیں اترا اور وہ ابھی تک شک وشبہ میں مبتلا ہیں۔
Top