Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 78
اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَ نَجْوٰىهُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِۚ
اَلَمْ : کیا يَعْلَمُوْٓا : وہ جانتے اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے سِرَّهُمْ : ان کے بھید وَنَجْوٰىهُمْ : اور ان کی سرگوشی وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ عَلَّامُ : خوب جاننے والا الْغُيُوْبِ : غیب کی باتیں
کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ان کے راز اور ان کی سرگوشی کو جانتا ہے اور اللہ تمام غیبوں کا جاننے والا ہے۔
اَلَمْ یَعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ سِرَّھُمْ وَنَجْوٰھُمْ وَاَنَّ اللّٰہَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ج (التوبۃ : 78) (کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ان کے راز اور ان کی سرگوشی کو جانتا ہے اور اللہ تمام غیبوں کا جاننے والا ہے۔ ) اظہارِ تعجب اس آیت کریمہ میں اظہارِ تعجب بھی ہے اور منافقین کی اصل بیماری کی نشاندہی بھی۔ اظہارِ تعجب تو اس بات پر ہے کہ مدینہ میں نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری کو نو سال گزر گئے۔ ان منافقین میں سے کتنے ایسے ہیں جو نوسالوں سے ہی زیر تربیت ہیں۔ ان کے سامنے اسلامی انقلاب قدم قدم آگے بڑھا ہے اور آج پورا جزیرہ عرب اس کی گرفت میں ہے۔ مسلمان شروع میں مدینہ طیبہ میں نہ تو کسی قابل ذکر تعداد کے مالک تھے اور نہ ان کے وسائل کسی بڑے مقصد کا بوجھ اٹھاسکتے تھے۔ لیکن چند ہی سالوں میں جو نتیجہ نکلا وہ سامنے ہے، اس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسلام کی حقانیت نے خود دلوں کو اپیل کیا آنحضرت ﷺ کی دلآویز شخصیت اور تعلیم و تربیت نے انسانوں میں مضبوط کردار پیدا کیا اور اللہ کی تائید ونصرت قدم قدم پر شامل حال رہی تو آج پورے جزیرہ عرب پر اسلام کا پرچم لہرارہا ہے۔ یہ سب کچھ منافقین کے سامنے ہوا انھوں نے اپنی آنکھوں سے اللہ کے نبی کے معجزات بھی دیکھے اور قدرت حق کی پیہم نوازشات بھی مشاہدہ کیں۔ لیکن نہ ان کے عقیدے میں کوئی تبدیلی آئی، نہ ان کے دل و دماغ کو سیرابی ملی اور نہ ان کے اندر مضبوط کردار نے جنم لیا اس پر تعجب کے اظہار کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ ان کی جس بیماری کی نشاندہی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ نفاق دراصل اپنی حالت کے ایسے اخفا کا نام ہے جس کی بنیاد جھوٹ اور فریب پر ہو۔ آدمی جس بات کا دعویٰ کرتا ہے حقیقت میں وہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ جب وہ یہ کہتا ہے کہ میں مومن ہوں حالانکہ یہ اس کے دل کی آواز نہیں ہوتی زبان سے وہ ایک ایسی بات کہتا ہے جس سے دل انکار کرتا ہے۔ منافقین اپنے آپ کو مسلمانوں کا ہمدرد و غمگسار ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں ان کی ساری ہمدریاں مسلمانوں کے دشمنوں سے ہوتی ہیں۔ اس طرح سے اگر غور کیا جائے تو ان کی پوری زندگی قول وفعل کا تضاد ہوتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو چھپانے کے لیے ہر قدم پر جھوٹ بولتے ہیں نفاق کا بھرم رکھنے کے لیے وہ ہمیشہ وعدوں کو توڑتے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے گمان میں اللہ نہ سنتا ہے نہ دیکھتا ہے۔ جب وہ مسلمانوں کے خلاف سرگوشیاں کرتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ سرگوشیوں کو نہیں سنتا۔ وہ دلوں میں اسلام کے خلاف جو کچھ چھپائے پھرتے ہیں ان کا گمان یہ ہے کہ اللہ ان کو نہیں جانتا۔ اگر انھیں اللہ کے علم کی وسعتوں کا یقین ہوتا اور وہ واقعی اسے تمام غیبوں کا جاننے والا سمجھتے تو وہ کبھی بھی منافق بن کر رہنے کی جرات نہ کرتے۔
Top