Taiseer-ul-Quran - Al-Kahf : 105
كَیْفَ یَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِیْنَ عَهْدٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ عِنْدَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ۚ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ
كَيْفَ : کیونکر يَكُوْنُ : ہو لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے عَهْدٌ : عہد عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس وَعِنْدَ رَسُوْلِهٖٓ : اس کے رسول کے پاس اِلَّا : سوائے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو عٰهَدْتُّمْ : تم نے عہد کیا عِنْدَ : پاس الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام فَمَا : سو جب تک اسْتَقَامُوْا : وہ قائم رہیں لَكُمْ : تمہارے لیے فَاسْتَقِيْمُوْا : تو تم قائم رہو لَهُمْ : ان کے لیے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
کیسے رہ سکتا ہے مشرکین سے کوئی معاہدہ اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک ؟ ہاں ! جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تو جب تک وہ قائم رہیں تم بھی قائم رہو، بیشک اللہ ایفائے عہد کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
کَیْفَ یَکُوْنُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَہْدٌ عِنْدَ اللّٰہِ وَعِنْدَ رَسُوْلِہٖٓ اِلَّا الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ج فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَہُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ کَیْفَ وَاِنْ یَّظْھَرُوْا عَلَیْکُمْ لَا یَرْقُبُوْا فِیْکُمْ اِلًّا وَّلاَ ذِمَّۃً ط یُرْضُوْنَکُمْ بِاَفْوَاھِھِمْ وَتَاْبٰی قُلُوْبُھُمْ ج وَاَکْثَرُھُمْ فٰسِقُوْنَ ج ( التوبۃ : 7، 8) (کیسے رہ سکتا ہے مشرکین سے کوئی معاہدہ اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک ؟ ہاں ! جن سے تم نے مسجدِحرام کے پاس معاہدہ کیا تو جب تک وہ قائم رہیں تم بھی قائم رہو، بیشک اللہ ایفائے عہد کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ کس طرح مشرکین سے معاہدہ رہ سکتا ہے اس حال میں کہ اگر وہ تم پر غالب آجائیں تو نہ لحاظ کریں کسی قرابت کانہ عہد کا وہ خوش کرتے ہیں تمہیں اپنی باتوں سے اور ان کے دل انکار کررہے ہوتے ہیں اور ان کی اکثریت بد عہد اور بدقماش ہے۔ ) یہ دونوں آیتیں مضمون کے اعتبار سے ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلی آیت میں جو بات شروع کی گئی ہے اسے دوسری آیت میں مکمل فرمایا گیا ہے اور پہلی آیت میں اِلَّاکے بعد جملہ معترضہ لایا گیا ہے۔ اس کا تعلق اگرچہ دونوں آیتوں میں بیان کردہ بات سے ہے لیکن وہ ایک حد تک الگ بھی ہے۔ اس کو ذکر کیے بغیر چونکہ یہ بات مکمل نہیں ہوسکتی تھی اس لیے بات روک کر اس کو ذکر فرمایا گیا اور پھر اصل بات کو مکمل کیا گیا ہے۔ دفعِ دخلِ مقدر ان دونوں آیتوں میں ایک ایسے اشکال یا سوال کا جواب دیا جارہا ہے جو ممکن ہے زبانوں تک بھی آیا ہو دلوں میں تو بہت سے لوگوں کے مچل رہا تھا۔ سوال یہ تھا کہ اسلام تو عہد کی پاسداری کی بےحد تاکید کرتا ہے اسی لیے آنحضرت ﷺ نے ہمیشہ مشرکین سے معاہدوں کی پابندی فرمائی اور مزید یہ کہ اسلام دراصل ایک دعوت فکر ہے وہ بنیادی طور پر دلوں میں انقلاب برپا کرتا ہے، اس کے نتیجے میں خودبخود باہر بھی تبدیلیاں آتی ہیں۔ یہ یکایک کیا تبدیلی آئی ہے کہ تمام معاہدوں کو توڑنے کا اعلان کردیا گیا ہے اور مشرکین کو دعوت دینے کی بجائے ان سے بےزاری کا اظہار کیا جارہا ہے اور قوت اور طاقت سے جو لوگ اسلام کی آغوش میں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں، انھیں ختم کیا جارہا ہے۔ اس کے جواب میں ایک بات تو وہ جو دونوں آیتوں میں فرمائی گئی ہے اور دوسری بات وہ ہے جسے جملہ معترضہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ جملہ معترضہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ تم کہتے ہو اسلام نے معاہدات کے ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے حالانکہ اسلام نے ان معاہدات کو ختم کرنے اور ان لوگوں سے ترک تعلق کا اعلان کیا ہے جو باربار نقض عہد کا ارتکاب کرتے رہے۔ وہ معاہدہ، ایفائے عہد کے جذبے سے نہیں کرتے تھے بلکہ محض وقت گزاری یا مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے۔ اب چونکہ اسلامی انقلاب اپنی تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے، تو ان لوگوں سے معاہدات باقی رکھناجو جانتے ہی نہیں وفا کیا ہے، ضیاعِ وقت کے سوا اور کچھ نہیں۔ البتہ ! وہ لوگ جنھوں نے ابھی تک معاہدے نہیں توڑے اور انھوں نے دشمن سے کبھی ساز باز نہیں کی، ان کے بارے میں صاف حکم دیا گیا ہے کہ جن لوگوں سے تم نے مسجدِحرام کے پاس معاہدہ کیا تھا اور انھوں نے ابھی تک اسے توڑا نہیں تم بھی ان معاہدوں کی پابندی کرو۔ جب تک وہ قائم رہیں تم بھی قائم رہو۔ بعض اہل علم کے نزدیک اس سے مراد معاہدہ حدیبیہ ہے جو چھ (6) ہجری میں مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان ہوا اور یہ آیت معلوم ہوتی ہے اسی زمانے میں نازل ہوئی تھی اور مضمون کی مناسبت سے اسے ان آیات میں شامل کردیا گیا ہے۔ بعض دوسرے اہل علم کا خیال یہ ہے کہ یہ آیت اسی سلسلہ آیات کی ہے اور اس سے مراد وہ معاہدہ ہے جو بنی کنانہ اور بنی خزاعہ اور بنی ضمرہ اور مسلمانوں کے درمیان ہوا تھا اور یہ معاہدہ ابھی تک چل رہا تھا۔ معاہدہ حدیبیہ ختم ہوجانے کے بعد تو مکہ فتح ہوگیا لیکن ان قبائل کے ساتھ یہ معاہدات باقی رہے۔ یہاں انھیں معاہدات کی پابندی کو باقی رکھنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ حکم کو مؤکد کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نقضِ عہد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور اللہ کے پسند نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ انھیں سزا دیتا ہے اور ان کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ تقویٰ کا لفظ جس طرح حقوق و فرائض کی پاسداری کے لیے بولا جاتا ہے، اسی طرح نقض عہد سے بچنے کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ رہی یہ بات کہ مشرکوں سے معاہدے توڑنے کا اعلان کیوں کیا گیا ہے تو اس کی وجہ دو (2) ہیں۔ معاہدہ توڑنے کی دو وجہ پہلی وجہ یہ ہے کہ اللہ کا کوئی رسول جب بھی انسانوں کی طرف ہدایت کے لیے بھیجا جاتا ہے تو وہ اس وقت تک تبلیغ و دعوت سے کام لیتا ہے تاآنکہ یا تو لوگ مسلمان ہوجائیں اور یا ان پر اتمامِ حجت ہوجائے۔ ان کے انکار کی صورت میں اور اتمامِ حجت ہوجانے کے بعد اللہ کے رسول کو ہجرت کا حکم ہوتا ہے اور کافروں پر اللہ کا عذاب آجاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے سالہاسال تک تبلیغ و دعوت کا کام کیا۔ تمام ممکن ذرائع بروئے کار لائے۔ اللہ نے برکت عطا فرمائی اور آپ کے لیے کامیابی کے راستے کھلتے گئے۔ بالآخر جزیرہ عرب میں ایک وقت آیا کہ مکمل اسلامی غلبے کا امکان پیدا ہوگیا۔ عرب کی اکثریت پر اتمامِ حجت ہوگیا اور اگر کہیں اس کا امکان باقی رہا کہ شاید ان تک دعوت نہ پہنچی ہو یا اسے وہ سمجھ نہ پائے ہوں تو انھیں چار مہینے کی مہلت دی گئی اور جن سے ابھی معاہدے باقی تھے انھیں مدت معاہدہ تک آسانیاں دی گئیں۔ ایسی صورتحال میں چار مہینے مدت گزرنے کے بعد مزید مہلت دینا یا معاہدات کرنے کی کوشش کرنا بلاوجہ اسلامی انقلاب اور غلبہ دین میں تاخیر کرنے کے مترادف ہوتاجب کہ مقصود غلبہ دین کے سوا کچھ نہیں اور جس سے اس مقصد کی بجاآوری میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہو ظاہر ہے کہ اس کے باقی رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مشرکین کا اپنا رویہ مسلمانوں کے ساتھ کیا ہے۔ باوجود اس کے کہ مسلمان کوئی باہر سے آئی ہوئی قوم نہیں بلکہ اسی سرزمین پر رہنے والے اور انھیں بستیوں کے باسی ہیں۔ مشرکین سے ان کی خاندانی نسبتیں اور قرابت کے رشتے ہیں۔ ہر مسلمان کسی نہ کسی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے اور مہاجرین کی اکثریت تو قریش کے قبیلے سے وابستہ ہے اور جن کے ساتھ رشتہ قرابت نہیں ان کے ساتھ کوئی نہ کوئی سیاسی رشتہ ہے جو معاہدات کی صورت میں پیدا ہوا ہے اور یہ بات جانی پہچانی ہے کہ دنیا میں رشتے دو ہی قسم کے ہیں ایک تو وہ رشتہ جو رحمی قرابت سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی سے ننھیال اور ددھیال وجود میں آتے ہیں اور دوسرا وہ رشتہ جو سیاسی معاہدوں کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ مشرکینِ عرب کے دونوں رشتے مسلمانوں سے قائم تھے۔ اس آیت کریمہ میں قرابت کے رشتے کو اِلًّا سے تعبیر کیا گیا ہے اور دوسرے رشتے کو ذِمَّۃًسے یاد کیا گیا ہے۔ مشرکین نے اسلام دشمنی میں ان دونوں رشتوں کو ہمیشہ پامال کیا۔ اس لیے یہاں فرمایا گیا کہ مشرکین سے کس طرح معاہدات کیے جاسکتے ہیں یا کس طرح انھیں باقی رکھا جاسکتا ہے ؟ جبکہ انھوں نے ان دونوں رشتوں کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ جب بھی ان کو موقع ملا ہے انھوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ حدیبیہ میں جو معاہدہ ہوا دوسرے ہی سال جس طرح اس کے پرزے اڑائے گئے تاریخ کا ہر طالبعلم اسے جانتا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے بنوخزاعہ مسلمانوں کے حلیف تھے اور بنو بکر قریش کے۔ رات کی تاریکی میں بنو بکر نے بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور قریش کے نوجوانوں نے نقاب پہن کر ان کا ساتھ دیا اور انھیں اس حملے کے لیے ہتھیار مہیاکیے۔ بنو خزاعہ جان بچانے کے لیے حرم میں گھسے انھیں وہاں بھی زندہ نہ چھوڑا گیا اور جہاں تک قرابت کے رشتوں کا سوال ہے سیرت کا طالبعلم شعب ابی طالب کو کیسے بھول سکتا ہے جس میں مسلمان محض اپنی جان بچانے کے لیے محصور ہوئے۔ تین سال تک حج کے دنوں کے علاوہ کسی کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ باہر سے آئے ہوئے کسی قافلہ تجارت سے اگر مسلمان غلہ خریدنے کی کوشش کرتے توقریش ہر قبیلے پر پابندی لگادیتے کہ آپ مسلمانوں کو کوئی چیز بیچنے کے مجاز نہیں ہیں اور اگر آپ کو یہ خیال ہو کہ یہ چیز بکے بغیر رہ جائے گی تو ہم اسے خریدنے کی ضمانت دیتے ہیں۔ مسلمانوں نے ان دنوں درختوں کے پتے اور ٹہنیاں کھائیں۔ کوئی چمڑہ انھیں مل جاتا اسے توے پر بھون کر کھاجاتے۔ بچوں کے رونے کی آوازیں انھیں باہر سنائی دیتیں لیکن ان ظالموں کے دل کبھی نہ پسیجتے۔ ایسے لوگوں سے معاملات کے باقی رکھنے کا کیا امکان ہوسکتا ہے۔ اسلام اب چونکہ ایک غالب قوت ہے اور اب اسے پہلی فرصت میں جزیرہ عرب کو مکمل طور پر مرکز اسلام میں تبدیل کرنا ہے۔ اس لیے یہ بات از بس ضروری ہے کہ راستے کے ان کانٹوں سے دامن چھڑا کر منزل کی طرف بڑھاجائے اور ان کی سخن سازیوں کی حقیقت سمجھ کر ان کے قلبی ارادوں اور نیتوں کے فسادات کو جان کر اور یکسو ہوکرآخری اقدام کرڈالا جائے اور اس بات کا ادراک کرلیا جائے کہ ان کی قطعی اکثریت وعدہ خلاف اور سیرت و کردار سے تہی دامن لوگوں پر مشتمل ہے۔ فاسق قرآن کریم کی زبان میں ایسے ہی لوگوں کو کہا جاتا ہے جو ہر شرافت کو چھوڑ چکے اور ہر سچائی سے منہ موڑ چکے ہوں۔ اور حدود الہٰی سے تجاوز کرنے میں انھیں کوئی باک نہ ہو۔ اِشْتَرَوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ثَمَنًا قَلِیْلًا فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِہٖطاِنَّھُمْ سَآئَ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (التوبۃ : 9) (انھوں نے اللہ کی آیات کے عوض میں ایک نہایت حقیر قیمت اختیار کرلی اور اس طرح وہ اللہ کی راہ سے رک گئے، بیشک بہت برا ہے جو کچھ وہ کررہے ہیں۔ ) متذکرہ خرابیوں کا سبب متذکرہ بالا خرابیاں ان کے اندر اس لیے راہ پاگئی ہیں اور اب وہ مستقل طور پر ان کے اخلاق کا حصہ ہیں کیونکہ انھوں نے دین کے بدلے میں دنیا کو اپنا محبوب اور مقصود بنالیا ہے اللہ کے رسول ان کی طرف زندگی بخش پیغام لے کر آئے لیکن یہ اس پر کان دھرنے کی بجائے زندگی کے نفع و نقصان کے خیالات میں کھوئے رہے۔ وہ دنیا اور دنیوی دولت کو ایک حقیقت سمجھتے ہیں اور اس کے مقابلے میں ہر معنوی، روحانی اور اخروی قدروعظمت کو ایک افسانہ سمجھتے ہیں۔ انھیں چونکہ مرنے کے بعد زندہ ہونے کا یقین نہیں اور کسی جواب دہی کا اندیشہ نہیں اس لیے ان کے نفس کے تقاضے ایسے بےلگام ہوگئے ہیں کہ وہ ان سے دنیا اور دولت دنیا کے حصول کے لیے ہر غلط سے غلط اور ہر برے سے برا کام کرانے کے لیے آمادہ رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک وحی الہٰی محض ایک ڈھکوسلا ہے۔ دنیا ان کے نزدیک ایک نیلام گھر ہے جس میں ہر چیز پیسے سے خریدی جاسکتی ہے۔ وہ اللہ کی آیات کو بھی خریدوفروخت کی چیز سمجھتے ہیں۔ دنیا کے بارے میں ان کے ان تصورات نے ان کی سوچ کو اس نہج پر ڈال دیا ہے کہ ان کا کوئی قدم اللہ کے راستے کی طرف اٹھنے کے لیے تیار نہیں بہت برا ہے وہ رویہ جس کو یہ اختیار کرچکے ہیں۔ اس رویے سے کسی خیر کی امید رکھنا خودفریبی ہے ایسے لوگوں کے ساتھ ہر سوچنے والا آدمی فیصلہ کرسکتا ہے کہ اللہ اور رسول کا کوئی عہد کیسے رہ سکتا ہے۔
Top