Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 93
اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَى الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَكَ وَ هُمْ اَغْنِیَآءُ١ۚ رَضُوْا بِاَنْ یَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ١ۙ وَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں (صرف) السَّبِيْلُ : راستہ (الزام) عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَسْتَاْذِنُوْنَكَ : آپ سے اجازت چاہتے ہیں وَهُمْ : اور وہ اَغْنِيَآءُ : غنی (جمع) رَضُوْا : وہ خوش ہوئے بِاَنْ : کہ يَّكُوْنُوْا : وہ ہوجائیں مَعَ : ساتھ الْخَوَالِفِ : پیچھے رہ جانیوالی عورتیں وَطَبَعَ : اور مہر لگا دی اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل فَهُمْ : سو وہ لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
الزام تو بس ان لوگوں پر ہے جو آپ ﷺ سے اجازت مانگتے ہیں حالانکہ وہ مالدار ہیں اور وہ راضی ہوگئے اس پر کہ وہ پیچھے رہیں خانہ نشین عورتوں کے ساتھ اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی بس وہ کچھ نہیں جانتے۔
اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَسْتَاذِنُوْنَکَ وَھُمْ اَغْنِیَآئُ ج رَضُوْا بِاَنْ یَّکُونُْومَعَ الْخَوَالِفِ لا وَ طَبَعَ اللَّہُ عَلٰیْ قُلُوْبِھمِْ فَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ (الزام تو بس ان لوگوں پر ہے جو آپ ﷺ سے اجازت مانگتے ہیں حالانکہ وہ مالدار ہیں اور وہ راضی ہوگئے اس پر کہ وہ پیچھے رہیں خانہ نشین عورتوں کے ساتھ اور اللہ نے ان دلوں پر مہر لگا دی بس وہ کچھ نہیں جانتے۔ ) منافقین چونکہ مختلف بہانوں اور چرب زبانی سے کام لے کر آنحضرت ﷺ سے جنگ سے پیچھے رہنے کی اجازت لینے کی کوشش کرتے تھے اور آنحضرت ﷺ کی کریم النفسی کے باعث بعض کامیاب بھی ہوجاتے تھے پروردگار نے ایسے تمام اشتباہات کے مواقع کو ختم کرنے کے لیے گزشتہ دو آیات کریمہ میں تفصیل سے وضاحت فرما دی کہ اللہ کے نزدیک حقیقی معذورین کون ہیں۔ اس آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ وہ لوگ جو کسی طرح بھی معذورین میں شامل نہیں اور جن کا پیچھے رہنا یا جنگ میں شرکت سے پیچھے رہنے کے لیے عذر پیش کرنا اللہ کے نزدیک سخت قابل اعتراض ہے اور قیامت کے دن عذاب کا باعث ہے۔ وہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس وسائلِ جنگ کی کوئی کمی نہیں یہ لوگ مالی لحاظ سے اغنیا یعنی مالداروں میں شامل ہیں۔ سواری بھی رکھتے ہیں اور اسلحہ جنگ بھی، اس کے باوجود جیسے ہی اللہ کے راستے میں نکلنے کا اعلان ہوتا ہے وہ آپ ﷺ کے پاس اجازت طلبی کے لیے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ اور ان کے دل کی کیفیت یہ ہے کہ وہ کسی طرح بھی جہاد فی سبیل اللہ میں شرکت پر آمادہ نہیں بلکہ اس کے بر عکس وہ عرب کی عام خصوصیات سے بھی تہی دامن ہوچکے ہیں کوئی عرب جنگ کے موقع پر خانہ نشین عورتوں کے ساتھ گھر میں بیٹھ رہنے کو پسند نہیں کرتا۔ خوالف ان عورتوں کو کہتے ہیں جو گھروں کے کام کاج کے لیے گھروں میں رہتی ہیں عربوں میں چونکہ مردانگی کا احساس کچھ زیادہ ہی پایا جاتا تھا اس لیے جن اعمال کو عورتوں کی خصوصیت سمجھا جاتا تھا وہ انھیں اختیار کرنا اپنے لیے بےغیرتی کا باعث سمجھتے تھے۔ لیکن انھوں نے پیچھے رہنے کی اجازت طلب کر کے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ کیے ہوئے سمع و اطاعت کے عہد کو بھی توڑ ڈالا اور خانہ نشین عورتوں کے ساتھ گھر میں رہنا پسند کر کے بےغیرتی کو بھی پسند کرلیا اس کا مطلب یہ ھوا کہ انھوں نے اپنے آپ کو ہر طرح کی خیر کی صلاحیت سے محروم کرلیا۔ اس پر اللہ کا قانون حرکت میں آیا اور اس نے ان کے دلوں پر مہر کردی جس کے نتیجے میں یہ ہر صحیح بات کی شناخت اور اس کی قبولیت کی صلاحیت سے محروم کر دئیے گئے۔ اب وہ ایک ایسی دیوار کی مانند ہیں جس کے ساتھ سر پٹخا تو جاسکتا ہے انھیں کوئی بات سمجھائی نہیں جاسکتی کیونکہ وہ ہر صحیح بات جاننے اور قبول کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔
Top