Tafseer-e-Saadi - Maryam : 3
اِ۟لَّذِیْنَ یَسْتَحِبُّوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا عَلَى الْاٰخِرَةِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ یَبْغُوْنَهَا عِوَجًا١ؕ اُولٰٓئِكَ فِیْ ضَلٰلٍۭ بَعِیْدٍ
الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَسْتَحِبُّوْنَ : پسند کرتے ہیں الْحَيٰوةَ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا عَلَي الْاٰخِرَةِ : آخرت پر وَيَصُدُّوْنَ : اور روکتے ہیں عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَيَبْغُوْنَھَا : اور اس میں ڈھونڈتے ہیں عِوَجًا : کجی اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ فِيْ : میں ضَلٰلٍۢ : گمراہی بَعِيْدٍ : دور
جو آخرت کی نسبت دنیا کو پسند کرتے اور (لوگوں) خدا کے راستے سے روکتے اور اس میں کجی چاہتے ہیں۔ یہ لوگ پرلے سرے کی گمراہی میں ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کفار کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : (آیت) ” وہ لوگ جو دنیا کی زندگیکو پسند کرتے ہیں آخرت پر “ پس وہ دنیا پر راضی اور مطمئن ہو کر آخرت سے غافل ہوگئے۔ (ویصدون) ” اور (لوگوں کو) روکتے ہیں “ (عن سبیل اللہ) ” اللہ کے راستے سے “ وہ راستہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا ہے اور اسے اپنی کتابوں میں اور اپنے رسولوں کی زبان پر خوب بیان کردیا ہے مگر یہ لوگ اپنے آقا و مولا کے مقابلے میں عداوت و محاربت کا اظہار کرتے ہیں (ویبغونھا) ” اور تلاش کرتے ہیں اس میں “ یعنی اللہ تعالیٰ کے راستے میں (عوجاً ) ” کجی “ یعنی وہ اس راستے کو خراب کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کے خلاف نفرت پیدا ہوجائے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنی روشنی کو پورا کر کے رہے گا خواہ کفار کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔ (اولئک) یعنی وہ لوگ جن کا وصف بیان کیا گیا ہے، (فی ضل بعید) ” دور کی گمراہی میں ہیں۔ “ کیونکہ وہ خود گمراہ ہوئے، لوگوں کو گمراہ کیا، انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور ان کے خلاف جنگ کی۔ پس اس سے بڑھ کر اور کون سی گمراہی ہے ؟ لیکن اہل ایمان کا معاملہ اس کے برعکس ہے وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات پر ایمان رکھتے ہیں، دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے ہیں، وہ لوگوں کو اللہ کے راستے کی طرف دعوت دیتے ہیں، وہ امکان بھر اس راستے کو خوبصورت بناتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ سیدھا رہے۔
Top