Tafseer-e-Saadi - Al-Baqara : 116
وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ بَلْ لَّهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ
وَ : اور قَالُوْا : انہوں نے کہا اتَّخَذَ : بنا لیا اللہُ : اللہ وَلَدًا : بیٹا سُبْحَانَهٗ : وہ پاک ہے بَلْ : بلکہ لَهٗ : اسی کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَ الْاَرْضِ : اور زمین كُلٌّ : سب لَهٗ : اسی کے قَانِتُوْنَ : زیر فرمان
اور یہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ خدا اولاد رکھتا ہے (نہیں) وہ پاک ہے بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور سب اس کے فرمانبردار ہیں
(آیت) وقالوا۔ یعنی یہود و نصاریٰ ، مشرکین اور ان تمام لوگوں نے کہا جو کہتے ہیں : (آیت) اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا ۙ ” اللہ نے بیٹا بنا لیا۔ “ انہوں نے ایسی بات اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کی جو اس کی جلالت شان کے لائق نہ تھی۔ انہوں نے بہت برا کیا اور اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس گستاخی پر صبر کرتا ہے، حلم سے کام لیتا ہے، انہیں معاف کر کے انہیں رزق عطا کرتا ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں نقص ثابت کرتے ہیں۔ (آیت) سبحٰنہ۔ یعنی وہ ان تمام صفات سے پاک اور منزہ ہے جن سے یہ اہل شرک اور اہل ظلم اسے متصف کرتے ہیں اور جو اس کے جلال کے لائق نہیں۔۔۔ پس پاک اور ہر عیب سے منزہ ہے وہ ذات جو ہر پہلو سے کمال مطلق کی مالک ہے جسے کسی بھی پہلو سے نقص لاحق نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کی تردید کرتے ہوئے اپنے منزہ ہونے پر دلیل قائم کی ہے۔ چناچہ فرمایا : (آیت) بَلْ لَّهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ۔ یعنی زمین و آسمان کی تمام مخلوق اس کی ملکیت اور اس کی غلام ہے۔ وہ ان میں اسی طرح تصرف کرتا ہے جس طرح مالک اپنے مملوک میں تصرف کرتا ہے۔ وہ اس کے اطاعت گزار اور اس کے دست تدبیر کے تحت مسخر ہیں۔ جب تمام مخلوق اس کی غلام اور اس کی محتاج ہے اور وہ خود ان سے بےنیاز ہے تو ان میں کوئی کیسے اس کا بیٹا ہوسکتا ہے۔ بیٹا لازمی طور پر اپنے باپ کی جنس سے ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کے جسم کا حصہ ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ مالک اور غالب ہے تم سب لوگ مملوک اور مغلوب ہو، اس کی ہستی بےنیاز اور تم محاتج محض، ایسا ہونے کے باوجود اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے ؟ یہ سب سے بڑا باطل اور سب سے زیادہ قبیح بات ہے۔ ” قنوت “ (اطاعت کرنا) کی دو اقسام ہیں۔ (1) قنوت عام : یعنی تمام مخلوق خالق کے دست تدبیر کے تحت اس کی اطاعت گزار ہے۔ (2) قنوت خاص : اس سے مراد اطاعت عبودیت ہے۔ پس قنوت کی پہلی قسم وہ ہے جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں کیا گیا ہے اور قنوت کی دوسری قسم وہ ہے جس کا ذکر (آیت) وقومو اللہ قانتین۔ البقرہ 23) ” اور اللہ کے سامنے ادب اور اطاعت گزاری کے ساتھ کھڑے رہیں۔ “ میں مذکور ہے۔ پھر فرمایا :: (آیت) بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بغیر کسی سابقہ مثال کے نہایت مضبوط اور بہترین طریقے سے تخلیق کیا ہے۔ (آیت) وَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ” وہ جس کام کو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہوجاتا ہے “ یعنی کوئی چیز اس کی نافرمانی نہیں کرسکتی اور کسی چیز کو اس کے سامنے انکار کرنے کی مجال نہیں۔
Top