Tafseer-e-Saadi - Al-Furqaan : 30
وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا
وَقَالَ : اور کہے گا الرَّسُوْلُ : رسول يٰرَبِّ : اے میرے رب اِنَّ : بیشک قَوْمِي : میری قوم اتَّخَذُوْا : ٹھہرا لیا انہوں نے ھٰذَا الْقُرْاٰنَ : اس قرآن کو مَهْجُوْرًا : متروک (چھوڑنے کے قابل)
اور پیغمبر کہیں گے کہ اے پروردگار ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا
آیت نمبر 30 سے 31 (وقال الرسول) اور کہا رسول ﷺ نے “ اپنے رب کو پکارتے، قرآن سے ان کی روگردانی کا شکوہ کرتے اور ان کے رویے پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے : (یرب ان قومی) ” اے میرے رب ! میری قوم نے۔ “ جن کی ہدایت اور جن میں تبلیغ کرنے کے لئے تو نے مجھے مبعوث کیا تھا (اتخذوا ھذا القرآن مھجورا) انہوں نے اس قرآن سے اعراض کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیا ہے حالانکہ ان پر واجب ہے کہ وہ اسے کے فیصلے کے سامن سر تسلیم خم کرتے، اس کے احکام کو قبول کرتے اور اس کی پیروی کرتے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے آگاہ فرمایا کہ ان کے گزشتہ آباء و اجداد نے بھی ایسا ہی کیا تھا جیسا یہ کہ کر رہے ہیں، چناچہ فرمایا : (وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا من المجرمین) ” اور اسی طرح بنایا ہم نے ہر نبی کا دشمن، گناہ گاروں میں سے۔ “ یعنی ان لوگوں میں سے جو بھلائی کی صلاحیت رکھتے تھے نہ اس کے لائق تھے بلکہ اس کے برعکس وہ انبیاء و رسل کی مخالفت کرتے تھے، ان کی دعوت کو ٹھکراتے تھے اور باطل دلائل کے ذریعے سے ان کے ساتھ جھگڑتے تھے۔ یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ حق ہمیشہ باطل پر غالب آتا ہے، حق پوری طرح واضح ہوتا ہے کیونکہ باطل کا حق کے ساتھ معارضی ایک ایسا امر ہے جو حق کو اور زیادہ واضح اور استدلال کو درجہء کمال تک پہنچا دیتا ہے اور یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل حق کو کس عزت و تکریم سے سرفراز کرے گا اور اہل باطل کے ساتھ کیا سلوک کرے گا، لہٰذا آپ ان کی باتوں پر غمزدہ نہ ہوں اور ان پر حسرت اور غم کے مارے آپ کی جان نہ گھلے۔ ) وکفی بربک ھادیا) ” اور آپ کو راہ دکھانے کے لئے آپ کا رب کافی ہے۔ “ پس آپ کو اپنا مطلوب و مقصود اور دنیا و آخرت کے تمام مصالح حاصل ہوں گے۔ (ونصیرا) ” اور مددگار بھی۔ “ وہ آپ کے دشمنوں کے خلاف آپ کی مدد کرے گا آپ کے دینی اور دنیاوی معاملات میں آپ سے تکلیف دہ امور کو دور کرے گا، اس لئے آپ اللہ تعالیٰ ہی کا کافی سمجھئے اور اسی پر بھروسہ کیجئے۔
Top