Tafseer-e-Saadi - Ash-Shu'araa : 204
اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ
اَفَبِعَذَابِنَا : کیا پس ہمارے عذاب کو يَسْتَعْجِلُوْنَ : وہ جلدی چاہتے ہیں
تو کیا یہ ہمارے عذاب کو جلدی طلب کر رہے ہیں ؟
آیت 204 سے 207 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے :) افبعذابنا) ” کیا یہ ہمارے عذاب کے لئے۔ “ جو بہت بڑا اور دردناک عذاب ہے جسے ہیچ سمجھا جاسکتا ہے نہ حقیر جانا جاسکتا ہے (یستعجلون) ” جلدی مچاتے ہیں ؟ “ کسی چیز نے ان کو فریب میں مبتلا کر رکھا ہے ؟ کیا اس عذاب کو برداشت کرنے کی ان میں قوت اور طاقت ہے ؟ جب یہ عذاب نازل ہوجائے گا تو کیا یہ اس کو دور کرنے یا اس کو اٹھا لینے کی قوت رکھتے ہیں۔۔۔ یا یہ ہمیں عاجز سمجھتے ہیں اور گمان رکھتے ہیں کہ ہم عذاب نازل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ؟ (افراء یت ان مثعنھم سنین) ” بھلا دیکھو تو اگر ہم ان کر برسوں فائدے دیتے رہیں۔ “ یعنی کیا آپ نے کچھ غور کیا کہ اگر ہم ان پر جلدی عذاب نازل نہ کریں اور ان کو چند سالوں کے لئے مہلت دے دیں اور یہ دنیا سے فائدہ اٹھائیں (ثم جاء ھم ما کانو یوعدون) ” پھر ان پر وہ واقع ہوجائے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ “ یعنی عذاب کا۔ (ما اغنی عنھم ما کانو یمتعون) ” جن (لذات و شہوات) سے وہ متمتع ہوتے تھے، وہ ان کے کسی کام نہ آئیں گی۔ “ یعنی کون سی چیز ان کے کام آسکتی اور انہیں کوئی فائدہ دے سکتی ہے ؟ درآنحالیکہ لذتیں باطل اور مضمحل ہو کر ختم ہوگئیں اور اپنے پیچھے برے اثرات چھوڑ گئیں اور انہیں طویل مدت تک کئی گنا عذاب دیا جائے گا۔ مقصد یہ ہے کہ وہ وقوع عذاب اور اس کے مستحق ہونے سے بچیں اور رہا عذاب کا جلدی نازل ہونا یا اس کے نزول میں تاخیر ہونا، تو اس کے تحت کوئی اہمیت نہ اس کے نزدیک اس کا کوئی فائدہ۔
Top