Tafseer-e-Saadi - Al-Fath : 4
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْۤا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِهِمْ١ؕ وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہی وہ جس نے اَنْزَلَ : اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) فِيْ قُلُوْبِ : دلوں میں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں لِيَزْدَادُوْٓا : تاکہ وہ بڑھائے اِيْمَانًا : ایمان مَّعَ : ساتھ اِيْمَانِهِمْ ۭ : ان کے ایمان کے وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے جُنُوْدُ : لشکر (جمع) السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ عَلِيْمًا : جاننے و الا حَكِيْمًا : حکمت والا
وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر تسلی نازل فرمائی تاکہ ان کے ایمان کے ساتھ اور ایمان بڑھے اور آسمانوں اور زمین کے لشکر (سب) خدا ہی کے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس احسان سے آگاہ فرمایا ہے کہ اس نے ان کے دلوں میں سکنیت نازل کی۔ سکنیت سے مراد وہ سکون، اطمینان اور ثبات ہے جو مضطرب کردینے والے مصائب و محن اور ایسے مشکل امور کے وقت بندۂ مومن کو حاصل ہوتا ہے، جو دلوں کو تشویش میں مبتلا کرتے ہیں، عقل کو سوچنے سمجھنے کی قوت سے عاری اور نفس کو کمزور کردیتے ہیں۔ پس اس صورت حال میں یہ اللہ کی طرف سے اپنے بندے کیلئے نعمت ہے کہ وہ اس کو ثابت قدم رکھتا ہے، اس کے قلب کو مضبوط کرتا ہے تاکہ وہ ان مصائب کو سامنا کرسکے اور اس حال میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو قائم کرنے کے لئے مستعد رہے، اس سے اس کے ایمان میں اضافہ اور اس کے ایقان کی تکمیل ہو۔ جب رسول اللہ ﷺ اور مشرکوں کے مابین، صلح کی یہ شرائط طے ہوئیں، جو صحابہ کرام ؓ کے لئے بظاہر ذلت آمیز اور ان کے مرتبے سے فروتر تھیں، تو ان شرائط پر ان کے نفوس صبر کرنے کی قوت نہیں پار ہے تھے۔ جب انہوں نے ان شرائط کو صبر کے ساتھ قبول کرلیا اور اپنے نفوس کو ان کی قبولیت پر آمادہ کرلیا تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوا۔ فرمایا : (وللہ جنود السموات والارض) یعنی زمین و آسمان کے تمام لشکر اس کی ملکیت اور اس کے دست تدبیر اور قہر کے تحت ہیں، اس لئے مشرکین یہ نہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین اور نبی کی مدد نہیں کرے گا، مگر اللہ تعالیٰ علم اور حکمت والا ہے، بنا بریں اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ لوگوں کے درمیان گردش ایام ہوتی رہے اور اہل ایمان کیلئے فتح و نصرت کسی دوسرے موقع تک مؤخر رہے۔ (لیدخل المومنین المومنت جنت تجری من تحتھا الانھر خلدین فیھا ویکفر عنھم سیاتھم) ” تاکہ وہ مومن مردوں اور مون عورتوں کی بہشتوں میں، جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، داخل کرے، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور تاکہ ان سے ان کے گناہوں کو دور کردے۔ “ یہ سب سے بڑی چیز ہے جو اہل ایمان کو حاصل ہوتی ہے یعنی دخول جنت کے ذریعے سے انہیں اپنا مطلوب و مقصود حاصل ہوتا ہے اور گناہوں کو مٹا دینے کے ذریعے سے وہ چیز زائل ہوتی ہے جس کا انہیں خوف تھا۔ (وکان ذلک) یہ مذکورہ جزا جو مومنوں کو عطا ہوگی (عند اللہ فوزا عظیما) ” اللہ کے ہاں بڑی کامیابی ہے۔ “ یہ ہے وہ فعل جو اللہ تعالیٰ اس فتح مبین میں اہل ایمانے بارے میں سر انجام دے گا۔ رہے منافق مرد اور منافق عورتیں، مشرک مرد اور مشرک عورتیں، تو اللہ تعالیٰ ان کو اس فتح مبین کے ذریعے سے عذاب دے گا، انہیں ایسے ایسے امور دکھائے گا جو ان کے لئے نہایت تکلیف دہ ہوں گے، چونکہ مشرکین کا مقصد یہ تھا کہ مومنین بےیارومددگار رہ جائیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ برا گمان رکھتے ہیں کہ وہ اپنے دین کی مدد کرے گا نہ اپنے کلمہ کو بلند کرے گا اور اہل باطل کو اہل حق پر غلبہ عطا کرے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے گمان کو الٹ دیا اور دنیا ہی میں ان پر برا وقت آگیا۔ (وغضب اللہ علیھم) اور ان کے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ عداوت رکھنے کے سبب سے اللہ تعالیٰ ان پر سخت ناراض ہے (ولعنھم) ” اور ان پر لعنت کی “ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا ہے (واعد لھم جھنم وساءت مصیرا) ” اور ان کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے جو بدترین ٹھکانا ہے۔ “
Top