Tafseer-e-Saadi - Ar-Rahmaan : 33
قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَیَحْزُنُكَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ
قَدْ نَعْلَمُ : بیشک ہم جانتے ہیں اِنَّهٗ : کہ وہ لَيَحْزُنُكَ : آپ کو ضرور رنجیدہ کرتی ہے الَّذِيْ : وہ جو يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں فَاِنَّهُمْ : سو وہ یقینا لَا يُكَذِّبُوْنَكَ : نہیں جھٹلاتے آپ کو وَلٰكِنَّ : اور لیکن (بلکہ) الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگ بِاٰيٰتِ : آیتوں کو اللّٰهِ : اللہ يَجْحَدُوْنَ : انکار کرتے ہیں
ہم کو معلوم ہے کہ ان (کافروں) کی باتیں تمہیں رنج پہنچاتی ہیں (مگر) یہ تمہاری تکذیب نہیں کرتے بلکہ ظالم خدا کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں۔
آیت 33 یعنی ہمیں علم ہے کہ آپ کی تکذیب کرنے والے آپ کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں اس سے آپ کو تکلیف پہنچتی ہے اور آپ غم زدہ ہوتے ہیں۔ ہم نے آپ کو صبر کرنے کا حکم محض اس لئے دیا ہے تاکہ آپ کو مقامات بلند اور گراں قیمت احوال حاصل ہوں۔ پس آپ یہ نہ سمجھیں کہ ان کا یہ قول اس سبب سے صادر ہوا ہے کہ ان کو آپ کے بارے میں کوئی اشتباہ یا شک لاحق ہوا ہے (فانھم لایکذبونک) ” بیشک وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے “ کیونکہ وہ آپ کی صداقت، آپ کے اندر، باہر اور آپ کے تمام احوال کو خوب جانتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے آپ کو ” امین “ کہا کرتے تھے (ولکن الظلمین بایت اللہ یجعدون) ” لیکن ظالم لوگ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔ “ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی ان آیات کو جھٹلاتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر ظاہر کیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (ولقد کذبت رسل من قبلک فصبروا علی ما کذبوا و اوذوا حتی اتھم نصرنا) ” آپ سے پہلے رسولوں کو بھی جھٹلایا گیا، پس انہوں نے اپنی تکذیب اور ایذا دیئے جانے پر صبر کیا، یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی “ پس جس طرح انہوں نے صبر کیا اسی طرح آپ بھی صبر کیجیے۔ جس طرح وہ ظفر یاب ہوئے آپ بھی ظفر یاب ہوں گے۔ (ولقد جآءک من نبای المرسلین) ” اور آپ کے پاس گزشتہ انبیا ومرسلین کی خبر پہنچ گئی ہے۔ “ جس سے آپ کے دل کو تقویت اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ (وان کان کبر علیک اعراضھم) ” اور اگر ان کی روگردانی آپ پر شاق گزرتی ہے۔ “ یعنی اگر ان کا اعراض آپ پر شاق گزرتا ہے، کیونکہ آپ ان کے ایمان کی بہت خواہش رکھتے ہیں تو آپ اس بارے میں اپنی پوری کوشش کر دیکھئے۔ پس اس شخص کو ہدایت دینا آپ کے بس میں نہیں جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دینا نہ چاہتا ہو۔ (فان استطعت ان تبتغی نفقا فی الارض اوسلما فی السمآء فتاتیھم بایۃ) ” پس اگر آپ سے ہوسکے کہ ڈھونڈ نکالیں کوئی سرنگ زمین میں، یا کوئی سیڑھی آسمان میں پھر لائیں آپ ان کے پاس کوئی نشانی “ یعنی یہ سب کچھ کر دیکھیے ان میں سے کوئی چیز بھی ان کو فائدہ نہیں دے گی۔ یہ آیت کریمہ اس قسم کیم عاندین حق کی ہدایت کی تمنا اور امید کو منقطع کرتی ہے۔ (ولو شآء اللہ لجمعھم علی الھدی) ” اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کردیتا “ مگر حکمت الٰہی متقاضی ہوئی کہ وہ اپنی گمراہی پر باقی رہیں (فلا تکونن من الجھلین) ” پس آپ جاہلوں میں شامل نہ ہوں “ جو حقائق امور کی معرفت نہیں رکھتے اور ان امور کو ان کے مقام پر نہیں رکھتے۔
Top