Tafseer-e-Saadi - At-Tawba : 23
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَتَّخِذُوْٓا : تم نہ بناؤ اٰبَآءَكُمْ : اپنے باپ دادا وَاِخْوَانَكُمْ : اور اپنے بھائی اَوْلِيَآءَ : رفیق اِنِ : اگر اسْتَحَبُّوا : وہ پسند کریں الْكُفْرَ : کفر عَلَي الْاِيْمَانِ : ایمان پر (ایمان کے خلاف) وَ : اور مَنْ : جو يَّتَوَلَّهُمْ : دوستی کریگا ان سے مِّنْكُمْ : تم میں سے فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی لوگ هُمُ : وہ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اے اہل ایمان ! اگر تمہارے (ماں) باپ اور (بہن ' بھائی) ایمان کے مقابلے کفر کو پسند کریں تو ان سے دوستی نہ رکھو۔ اور جو ان سے دوستی رکھیں گے وہ ظالم ہیں۔
آیت 23 اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے اے ” مومنوں ! “ ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرو۔ جو ایمان کے تقاضوں کو پارا کرتا ہے اس کے ساتھ موالات رکھو ‘ جو ان تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ان سے عداوت رکھو اور ” نہ بناؤ تم اپنے باپوں اور بھائیوں کو دوست “ جو لوگوں میں سے سب سے زیادہ تمہارے قریب ہیں اور دوسرے لوگوں کے بارے میں تو زیادہ اولٰی ہے کہ تم ان کو دوست نہ بناؤ۔ ” اگر وہ کفر کو پسند کریں ایمان کے مقابلے میں “ یعنی اگر وہ برضاو رغبت اور محبت سے ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ ” اور جو بھی دوستی کرے گا ان سے تم میں سے ‘ پس وہی لوگ ہیں ظالم “ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جسارت کی اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو اپنا دوست بنایا چونکہ ولایت اور دوستی کہ اساس محبت اور نصرت ہے اور ان کا کفارکو دوست بنانا ‘ کفار کی اطایت اور ان کی محبت کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت وہ محبت پر مقدم رکھنے کا موجب ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا ہے جو اس کا موجب ہے اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسول کی محبت۔ اس سے یہ بات متعین ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت ہر چیز پر مقدم ہے۔ فرمایا : ” کہہ دیجئے ! اگر ہیں تمہارے باپ “ اسی طرح یہ حکم ماؤں کے بارے میں بھی ہے ” اور تمہارے بیٹے اور بھائی “ یعنی نسبی اور خاندانی اعتبار سے۔” اور تمہاری بیویاں اور دیگھر عمومی رشتہ دار “ اور وہ مال جو تم کماتے ہو “ جس کے حصول میں مشقت برداشت کرتے ہو۔ کمائے ہوئے مال کا خاص طور پر اس لئے ذکر کیا ہے کیونکہ یہ اصحاب اموال کے نزدیک مرغوب ترین مال ہوتا ہے اور انہیں اس مال کی نسبت جو انہیں بغیر کسی محنت اور مشقت کے حاصل ہوتا ہے زیادہ محبوب و مرغوب ہوتا ہے۔ ” اور وہ سودا گری جس کے مندا ہونے سے تم درتے ہو “ یعنی سامان کے ارزاں ہونے اور اس میں نقصان واقع ہونے سے ڈرتے ہو۔ اس میں تجارت اور کاروبار کی تمام اقسام شامل ہیں ‘ مثلا ہر قسم کا سامان تجارت مال کی قیمتیں ‘ برتین ‘ اسلحہ ] اچیائے استعمال ‘ غلہ جات ‘ کھتیاں اور مویشی وغیرہ سب اسی زمرے میں آتے ہیں۔” اور وہ کگھر جن کو تم پسند کرتے ہو “ ان کی خوبصوتی ‘ سجاوٹ اور ان کا تمہارے خواہشات اور پسند کے مطابق ہونے کی وجہ سے ” اگر یہ تمام چیزیں تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور جہاد سے زیادہ محبوب ہیں “ تو تم فاسق وفاجر اور ظالم ہو۔” تو انتظار کرو۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہونے کا انتظار کرو ” یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے “ جسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔ ” اور اللہ نافرمان لوگوں کا ہدایت نہیں دیا کرتا۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ کے دائرہ اطایت سے بارہ نکلنے والے اور اللہ تعالیٰ کی محبت پر مذکورہ بالا اشیا کی محبت کو ترجیح دینے والے کو اللہ تعالیٰ ہدایت سے نہیں نوازتا۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت فرض ہے اور دیگھر تمام اشیا کی محبت پر مقد ہے۔ نیز آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے نہایت سخت وعید اور شدید ناراضی کا اظہار کیا گیا ہے جسے یہ مذکورہ اشیاء اللہ اس کے رسول اور جہاد سے زیادہ محبوب ہیں۔ اس کی علامت یہ ہے کہ اگر اس کے سامنے دوامور پیش ہوں ان میں ایک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول 249 کو محبوب ہو مگر اس میں اس کے نفس کی چاہت کا کوئی پہلونہ ہو اور دوسرے معاملے کو نفس پسند کرتا ہو مگر اس کی اختیار کرنے سے اس چیز سے محروم ہوجاتا ہو جسے اللہ اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں یا اس چیز میں کم واقع ہوجاتی ہو اس صورت میں اگر وہ اس چیز کو اس امر پر ترجیح دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ظالم اور اس امر کا تارک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب کیا ہے۔
Top