Siraj-ul-Bayan - Hud : 34
وَ لَا یَنْفَعُكُمْ نُصْحِیْۤ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللّٰهُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَكُمْ١ؕ هُوَ رَبُّكُمْ١۫ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَؕ
وَلَا يَنْفَعُكُمْ : اور نہ نفع دے گی تمہیں نُصْحِيْٓ : میری نصیحت اِنْ : اگر اَرَدْتُّ : میں چاہوں اَنْ اَنْصَحَ : کہ میں نصیحت کردوں لَكُمْ : تمہیں اِنْ : اگر (جبکہ) كَانَ : ہے اللّٰهُ يُرِيْدُ : اللہ چاہے اَنْ يُّغْوِيَكُمْ : کہ گمراہ کرے تمہیں هُوَ : وہ رَبُّكُمْ : تمہارا رب وَاِلَيْهِ : اور اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹ کر جاؤ گے
اور اگر اللہ تمہیں گمراہ کرنا چاہے گا ، تو میری نصیحت تمہیں سفید نہ ہوگی ، اگرچہ میں تم کو نصیحت کرنا (بھی) چاہوں ، وہ تمہارا رب ہے ، اور تم اسی کی طرف جاؤ گے (ف 1) ۔
غوایت سے مراد ہلاکت ہے ! (ف 1) (آیت) ” ان کان اللہ یرید “۔ الخ یعنی اگر اللہ کے علم میں یہ حقیقت پہلے سے موجود ہے کہ تم بالآخر گمراہی کو ترجیح دو کے ، اور ہدایت کو قبول نہیں کرو گے ، تو بتاؤ کہ تمہاری گمراہی کو ہدایت سے کون بدل سکتا ہے ۔ (آیت) ” یغویکم “۔ کے معنی ہلاکت کے بھی ہو سکتے ہیں اور ادب عربی میں اس کی مثالیں موجود ہیں ۔ قرآن میں ان معنوں کی تائید کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے ، (آیت) ” فسوف یلقون غیا “۔ ظاہر ہے یہاں گمراہی مراد نہیں ، گمراہی کی عقوبت یا عذاب مراد ہے ، علامہ ابن جریر (رح) فرماتے ہیں ، (آیت) ” من یغویکم یھلکم بعذابہ “۔ بنی طے کا استعمال یہ ہے کہ مریض کو غاوی کہتے ہیں ۔ جیسا کہ محاورہ ہے ” اصبح فلان غاویا “۔ ، یعنی مریضا : بہرحال یہ انداز بیان ہے ، ورنہ مقصود یہ نہیں کہ اللہ کو گمراہی پسند ہے ، اللہ اگر گمراہی چاہتا ہے تو پھر یہ بعث انبیاء اور ارسال کتب کا کیا مطلب ہے ؟ ۔ حل لغات : جادلتنا : بحث و تکرار ۔ اجرامی : میرا گناہ ۔
Top