Siraj-ul-Bayan - Hud : 56
اِنِّیْ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللّٰهِ رَبِّیْ وَ رَبِّكُمْ١ؕ مَا مِنْ دَآبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِهَا١ؕ اِنَّ رَبِّیْ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
اِنِّىْ : بیشک میں تَوَكَّلْتُ : میں نے بھروسہ کیا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر رَبِّيْ : میرا رب وَرَبِّكُمْ : اور تمہارا رب مَا : نہیں مِنْ : کوئی دَآبَّةٍ : چلنے والا اِلَّا : مگر هُوَ : وہ اٰخِذٌ : پکڑنے والا بِنَاصِيَتِهَا : اس کو چوٹی سے اِنَّ : بیشک رَبِّيْ : میرا رب عَلٰي : پر صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
میں نے اللہ پر جو میرا اور تمہارا رب ہے بھروسا کیا ، کوئی چلنے والا نہیں ہے ، جس کی چوٹی اللہ کے ہاتھ میں نہ ہو ، ضرور میرا رب راہ راست پر ہے (ف 1) ۔
1) ” اخذبنا صیتھا “۔ اصل میں تمثیل ہے تسخیر مخلوقات کی یعنی تمام کائنات اس طرح اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے جس طرح کسی جاندار کو سر سے پکڑ رکھا ہو ، (آیت) ” ان ربی علی صراط مستقیم “۔ سے غرض یہ ہے کہ خدا جس راہ کی جانب اپنے بندوں کو دعوت دیتا ہے حق وصداقت کی رہی راہ ہے ۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت ہود (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ قوم دشمن ہے اور نقصان پہنچانا چاہتی ہے تو آپ نے پورے صبر اور استقلال سے مقابلہ کیا ، دعوت وتذکیر کے عمل کو جاری رکھا اور کہا میں تمہاری شرارتوں سے ڈرتا نہیں اللہ پر میرا بھروسہ ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے ۔ بات یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو چونکہ اپنی صداقت پر یقین کامل ہوتا ہے ، اس لئے کوئی عداوت انہیں دبا نہیں سکتی جس قدر ان کی مخالفت کی جاتی ہے ، ان کا جذبہ حق پسندی ترقی پذیر ہوتا ہے ، ان کے عزم و استقلال میں اور اضافہ ہوجاتا ہے وہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ خدا کے دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہیں ۔
Top