Siraj-ul-Bayan - Al-Israa : 47
نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُوْنَ بِهٖۤ اِذْ یَسْتَمِعُوْنَ اِلَیْكَ وَ اِذْ هُمْ نَجْوٰۤى اِذْ یَقُوْلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا
نَحْنُ : ہم اَعْلَمُ : خوب جانتے ہیں بِمَا : جس غرض سے يَسْتَمِعُوْنَ : وہ سنتے ہیں بِهٖٓ : اس کو اِذْ يَسْتَمِعُوْنَ : جب وہ کان لگاتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف وَاِذْ : اور جب هُمْ : وہ نَجْوٰٓى : سرگوشی کرتے ہیں اِذْ يَقُوْلُ : جب کہتے ہیں الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِنْ : نہیں تَتَّبِعُوْنَ : تم پیروی کرتے اِلَّا : مگر رَجُلًا : ایک آدمی مَّسْحُوْرًا : سحر زدہ
ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ کس نیت سے قرآن سنتے ہیں ، (یعنی ہنسنے کو) جب تیری طرف کان لگاتے اور جب آپس میں مصلحت کرتے ہیں ، جب ظالم کہتے ہیں کہ تم تو ایک جادو کے مارے ہوئے کے پیرو ہو (ف 1) ۔
حضور ﷺ سحر زدہ نہیں تھے ! (ف 1) حضور ﷺ کو سحر زدہ کوتاہ نظری کی وجہ سے کہتے تھے ، جب دیکھتے کہ نبوت کے اسرار ان کی سمجھ سے بالا ہیں اور اسلام کے عجیب و غریب نظام کو سمجھنے کی صلاحیت ان میں موجود نہیں تو حیرت واستعجاب میں ڈوبے ہوئے اس کیفیت نافہمی کو جادو وسحر کی جانب منسوب کردیتے ، بات یہ ہے کہ نبوت انتہاء درجے کی دانائی وعقل کا نام ہے ، نبی فہم و فراست کے لحاظ سے انسانیت کا آخری نقطہ ہوتا ہے ، اس کے اعمال وافعال میں نظم وترتیب قائم رکھنے کیلئے پیغمبرانہ بصیرت کی حاجت ہے ، جو لوگ اس بصیرت وآگاہی سے محروم ہوتے ہیں ، وہ سہل اندیشی کی بنا پر کہہ دیتے ہیں ان کے اعمال میں ترتیب اور غرض ومقصد کی سطحیت نہیں اس لئے یہ دیوانہ یا سحر زدہ ہے ، ورنہ اصل میں پیغمبر نہایت بلند نگاہ انسان ہوتا ہے ، جس طرح ایک گنوار شائستہ اور مہذب شہری کے اعمال وافعال سمجھنے سے قاصر ہے ، اور وہ مجبور ہے کہ اس کی بعض حرکات کو محض جنون سے تعبیر کرے ، اسی طرح یہ گنوار بھی مجبور تھے کہ حضور ﷺ کے اعمال کو جنون وسحر کہیں ۔ حل لغات : وترا : بوجھ ، ثقل ۔ وفاتا : ماتکر وتفرق من لمتین ۔ ہڈیوں کا ٹوٹ کر اور بوسیدہ ہو کر بھوسے کی طرح چورا ہوجانا ۔
Top