Siraj-ul-Bayan - Al-Baqara : 118
وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ لَوْ لَا یُكَلِّمُنَا اللّٰهُ اَوْ تَاْتِیْنَاۤ اٰیَةٌ١ؕ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّثْلَ قَوْلِهِمْ١ؕ تَشَابَهَتْ قُلُوْبُهُمْ١ؕ قَدْ بَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِينَ : جو لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے لَوْلَا : کیوں نہیں يُکَلِّمُنَا : کلام کرتا ہم سے اللّٰہُ : اللہ اَوْ تَأْتِينَا : یا نہیں آتی ہمارے پاس اٰيَةٌ : کوئی نشانی کَذٰلِکَ : اسی طرح قَالَ : کہا الَّذِينَ : جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے مِثْلَ : جیسی قَوْلِهِمْ : بات ان کی تَشَابَهَتْ : ایک جیسے ہوگئے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل قَدْ بَيَّنَّا : ہم نے واضح کردیں الْآيَاتِ : نشانیاں لِقَوْمٍ : قوم کے لئے يُوْقِنُوْنَ : یقین رکھنے والے
وہ لوگ جن کو علم نہیں ‘ کہنے لگے ، اللہ ہم سے کیوں نہیں بولتا ۔ (ف 1) یا ہم کو کوئی نشان دیتا ۔ ان کے اگلوں نے بھی انہیں کی سی بات کہی تھی ، ان کے دل یکساں ہیں ، ہم نے اہل یقین کے لئے آیتیں (نشانیاں) بیان کردی ہیں ۔
1) ان آیات میں بتلایا گیا ہے کہ قریش مکہ کو معجزہ طلبی اور کرشمہ پسندی کا ایک مرض تھا ، یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح وہ یہ کہتے کہ خدا ہم سے براہ راست کیوں گفتگو نہیں کرتا اور وہ کیوں ہمیں نشان نہیں دکھلاتا ، فرمایا : (آیت) ” تشابھت قلوبھم “۔ یعنی ان نسب کی ذہنیت ایک ہی ہے ، کیا وہ نہیں دیکھتے کہ قرآن کی ایک ایک آیت معجزہ ہے ، رسول ﷺ کی زندگی کا ہر لمحہ وثانیہ اپنے اندر ایک جہان عقل وبصیرت رکھتا ہے ، بات یہ ہے کہ یقین ایمان کا ” ذوق “ ان میں نہیں رہا ۔
Top