Siraj-ul-Bayan - Al-Qasas : 56
اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ
اِنَّكَ : بیشک تم لَا تَهْدِيْ : ہدایت نہیں دے سکتے مَنْ اَحْبَبْتَ : جس کو تم چاہو وَلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن (بلکہ) اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَهُوَ : اور وہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِالْمُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والوں کو
(اے محمد ﷺ تو جسے چاہے راہ پر نہیں لاسکتا (ف 2) ۔ لیکن اللہ جسے چاہے راہ پر لائے ۔ اور وہ راہ پر آنے والوں کو خوب جانتا ہے
2: اہل کتاب کے اس صفت شعار گروہ کے ساتھ ایک ایسی جماعت بھی تھی ۔ جو قرآن کی روشنی سے دلوں کی ظلمتوں کو دور کرنا چاہتی تھی ۔ اور حضور کی یہ انتہائی خواہش تھی کہ لوگ بھی اسلام کی ضیاباریوں سے دماغوں کو منور کرلیں قرآن نے کہا ۔ اور آپ ہدایت کی جانب دعوت دے سکتے ہیں اور یہ کرسکتے ہیں ۔ کہ صبح وشام انہیں ان کے اعمال بد کے نتائج سے آگاہ کرتے رہیں ۔ مگر توفیق ہدایت آپ کے بس کی بات نہیں ۔ یہ آپ کے اختیار سے باہر ہے ۔ کہ جس کو چاہیں دائرہ فلاں و فوز میں شامل کرلیں ۔ اور اس کے سینے کو حق وصداقت کے لئے کھول دیں ۔ مفسرین کی رائے ہے ۔ کہ یہ آیت عام نہیں ہے ۔ بلکہ ابوطالب سے متعلق ہے ۔ کہ ہرچند حضور نے ان سے کہا ۔ چچا ایک دفعہ تو میرے سامنے توحید و رسالت کی گواہی دے دیجئے مگر انہوں نے جانتے بوجھتے یہی کہا ۔ کہ بھتیجے یہ نہیں ہوسکتا ۔ کہ میں اعیان قریش کی مخالفت کروں ۔ اور اسلام قبول کرلوں گویا باوجہ اعتراف علم اور حضور کی خواہش کے ابوطالب رشدو ہدایت کی برکتوں سے محروم رہ گئے ۔ کیونکہ اللہ کی طرف سے توفیق و استعداد ذاتی نہیں ہوئی تھی ۔ اور خدا کو منظور نہیں تھا ۔ کہ ابو طالب دنیا سے ایمان وایقان کی دولت لے کر جاتے
Top