Siraj-ul-Bayan - Al-Maaida : 54
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤ١ۙ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ١٘ یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ١ؕ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) مَنْ : جو يَّرْتَدَّ : پھرے گا مِنْكُمْ : تم سے عَنْ : سے دِيْنِهٖ : اپنا دین فَسَوْفَ : تو عنقریب يَاْتِي اللّٰهُ : لائے گا اللہ بِقَوْمٍ : ایسی قوم يُّحِبُّهُمْ : وہ انہیں محبوب رکھتا ہے وَيُحِبُّوْنَهٗٓ : اور وہ اسے محبوب رکھتے ہیں اَذِلَّةٍ : نرم دل عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) اَعِزَّةٍ : زبردست عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) يُجَاهِدُوْنَ : جہاد کرتے ہیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَ : اور لَا يَخَافُوْنَ : نہیں ڈرتے لَوْمَة : ملامت لَآئِمٍ : کوئی ملامت کرنیوالا ذٰلِكَ : یہ فَضْلُ : فضل اللّٰهِ : اللہ يُؤْتِيْهِ : وہ دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : علم والا
اے ایمان والو ! جو شخص پھر گیا تم میں سے اپنے دین سے ‘ پس عنقریب لائے گا اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جن سے وہ محبت کرتا ہے اور وہ اس سے محبت کرتے ہیں۔ وہ ایمان والوں پر نرم ہیں اور کفر کرنے والوں پر غالب و زبردست ہیں۔ وہ اللہ کے رستے میں جہاد کرتے ہیں اور نہیں خوف کھاتے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ‘ وہ دیتا ہے جس کو چاہے۔ اللہ تعالیٰ وسعت وار اور سب کچھ جاننے والا ہے
ربط آیات پہلے منافقین اور اہل کتاب کی برائیوں کا ذکر ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لقسن عہد ‘ احکامات الٰہی کی خلاف ورزی اور برے امور کی انجام دہی کی وجہ سے ان کی مذمت بیان فرمائی۔ پھر گذشتہ آیات میں ان کے ساتھ دوستانہ کرنے سے منع فرمایا۔ اللہ نے فرمایا کہ یہود ونصاری اور مشرکین ایک دوسرے کے دوست تو ہو سکتے ہیں مگر اہل ایمان کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتے۔ اللہ نے واضح فرمایا کہ ان میں اسلام کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے اور ہمیشہ اسلام اور اہل اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لہذا ان کے ساتھ دوستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اب آج کی آیات میں اہل ایمان کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ دین حق کو مانا اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا انسان کے لیے باعث سعادت ہے۔ اور اس کی صلاحیت کا ثبوت ہے فرمایا۔۔ اگر بالفرض تم بھی دین اسلام کو چھوڑ دو ۔ یعنی تم میں سے کوئی شخص اگر مرتد ہوجائے تو اس سے اللہ اور اس کے دین کو نقصان نہیں ہوگا بلکہ اس میں تمہارا اپنا ہی نقصان ہے۔۔ سابقہ آیت کے ساتھ اس آیت کا ربط اس طرح ہے کہ منافقین کی طرح تم بھی دل میں یہ خیال نہ لانا کہ اسلام کی مفروضہ مغلوبیت سے شاید تم گردش زمانہ کا شکار ہو جائو۔ لہذا اہل کتاب اور مشرکین سے روابط قائم رکھنا چاہیے ‘ فرمایا ایسی بات نہیں ہے۔ اگر تم نے خدا کی ذات پر توکل نہ کیا اور ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تب بھی اللہ کے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت کا کوئی اور بندو بست فرمادے گا۔ دین سے برگشتہ ہونا ارشاد ہوتا ہے یایھا الذین امنوا اے ایمان والو ! من یرتد منکم عن دینہ تم میں سے جو شخص برگشتہ ہوگ یا ہے دین سے ‘ یعنی اس نے اپنا رخ دین اسلام سے دوسری طرف پھیرلیا۔ تو اس دین کو کچھ نقصان نہیں پہنچے گا ‘ نہ اللہ تعالیٰ کا کوئی نقصان ہوگا ‘ بلکہ نقصان دین سے پھرجانے والے مرتد کا ہی ہوگا۔ مرتد اس شخص کو کہا جاتا ہے جو ایک دفعہ دین اسلام کو قبول کر کے پھر اس سے منحرف ہوجائے۔ کوئی دوسرا دین اختیار کرے یا محض دہریہ اور بےدین رہے۔ وہ بہر حال مرتد کی تعریف میں آئے گا۔ جس طرح قرآن و سنت میں کافر ‘ مشرک ‘ منافق وغیرہ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ‘ اسی طرح مرتد کا لفظ بھی بطور اصطلاح استعمال ہوتا ہے۔ بہرحال فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اسلام کو چھوڑ دے تو اس نے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی تائید و حفاظت اس طرح فرمائے گا۔ فسوف یاتی اللہ بقوم کہ وہ تمہاری جگہ ایسی قوم کو لے آئے گا یحبھم جن سے وہ محبت کرتا ہے ویحبونہ اور وہ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔ اور پھر آگے ان لوگوں کے اوصاف بھی بیان فرمائے ہیں۔ فتنہ مردین حضور علیہ الصلوۃ السلام کی وفات کے بعد مرتدین کا ایک فنہ کھڑا ہوگیا۔ عرب کے بہت سے قبائل مرتد ہوگئے مگر ان کے مقابلے میں مہاجرین ؓ اور انصار مدینہ ؓ دین کی حمایت و حفاظت پر ثابت قدم تھے۔ مرتدین میں یمن کے لوگ پیش پیش تھے چناچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ ان میں سے کچھ پلٹ کر اسلام میں دوبارہ داخل ہوگئے اور باقیوں کو قتل کردیا گیا اسی زمانے میں بعض لوگوں نے نبوت کا دعویٰ بھی کردیا ‘ ان میں صنعا کار بنے والا اسود بن کعب عنسی بڑا بد اخلاق آدمی تھا ۔ اس کو حضور ﷺ کے ایک صحابی فیروز ولمیی ؓ نے قتل کیا تھا ۔ رات کو قتل ہوا تو حضور ﷺ نے فرمادیا تھا کہ رات اسود قتل ہوگیا ہے آپ نے فیروز ؓ کے متعلق فرمایا فاز فیروز یعین فیروز کامیاب ہوگیا۔ کیونکہ اس نے دشمن رسول اور دشمن انسانیت کو قت کردیا۔ جس رات آپ نے خبر دی اس سے اگلے دن چاشت کے وقت حضور ﷺ کا وصال ہوگیا۔ پھر مہینہ کے آخر میں کچھ لوگ یمن سے آئے تو انہوں نے حضور ﷺ کی خبر کی تصدیق کی کہ فلاں تاریخ کو اسود عنسی قتل ہوگیا تھا۔ مسلیمہ کذاب بھی مشہور مدعی نبوت تھا۔ اہل ایمان نے اس کے خلاف بھی جہاد کیا اور اسے شکست دی ‘ وہ خود مارا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بیوی نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ‘ مگر بعد میں وہ تائب ہوگئی۔ اس کے علاوہ طلیحہ اسدی نامی شخص نے بھی نبوت کا دعوے کیا مگر تائب ہوگیا۔ ان کے علاوہ کچھ دوسرے لوگوں نے بھی ایسے دعوے کیے۔ بعض مارے گئے اور بعض دوبارہ ایمان لے آئے۔ بہر حال انصار و مہاجرین اور دیگر مخلص قبائل نے فتنہ ارتداو کا خوب مقابلہ کیا ‘ بالآخر یہ فتنہ ختم ہوگیا۔ محبان خدا کے اوصاف مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت کا مصداق حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ ۔۔۔۔۔۔ میں حضور ﷺ نے آپ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تھا کہ یہ اور اس کی قوم کے لوگ مرتدین کا مقابلہ کریں گے۔ ابو موسیٰ اشعری ؓ یمن کے رہنے والے تھے اور فتنہ ارتداد بھی زیادہ تر وہیں ابھرا اور پھر وہیں ان کا صفایا بھی ہوا۔ لہذا حضور ﷺ کی پیشن گوئی سچی ثابت ہوئی اور یمن ہی کے لوگوں نے اس فتنہ کو ختم کرنے میں مدد دی۔ چناچہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق فرمایا کہ اللہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت کا جذبہ ہو جزن ہے ‘ ان کی دوسری صفت یہ ہے اذلۃ علی المئو منین وہ ایمان والوں کے سامنے بڑے نرم ہیں۔ اذلہ یا ذلیل کا معنی حقیر بھی ہوتا ہے اور نرم اور ہموار بھی۔ چناچہ ناقۃ ذلول کا معنی ہموار اونٹنی کیا جاتا ہے جو اپنے سوار کو تکلیف نہ پہنچائے تو یہاں پر یہی معنی ہے اللہ تعالیٰ کی محبت سے سرشار لوگ ایمان والوں کے ساتھ نرم ہیں اور ان کے ساتھ شفقت سے پیش آتے ہیں۔ نیزاعزۃ علی الکفرین کفر کرنے والوں پر غالب اور زبردست ہیں۔ یعین کفار پر اس طرح جھپٹتے ہیں جس طرح شاہین یا باز شکار پر جھپٹتا ہے اور پھر ان پر غالب آتے ہیں۔ اعزۃ کا یہ معنی ہے۔ فرمایا ان لوگوں کی ایک صفت یہ بھی ہے یجاھدون فی سبیل اللہ وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں۔ ان کا واحد مقصد اللہ کی خوشنودی اور ان کے دین کی سربلندی ہوتا ہے ۔ غرضیکہ محبوبان خدا جان و مال کی قربانی دینے کے لیے ہر وقت تیار ہتے ہیں قربانی تو دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں ‘ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے ہیں اور بعض اوقاتختہ دار پر بھی لٹک جاتے ہیں مگر ان کے پیش نظر و طنیت ‘ ملوکیت زبان ‘ نسل یا پارٹی بازی ہوتی ہے وہ محض اقتدار حاصل کرنے کے لیے مالی اور جانی قربانی کرتے ہیں۔ مگر اہل ایمان اور دیگر اقوام کے درمیان طرہ امتیاز یہ ہے کہ ایمان والوں کے پیش نظر رضائے الہٰی کے علاوہ کوئی ذاتی غرض نہیں ہوتی۔ تو فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ فرمایا ‘ ان کی ایک صفت یہ بھی ہے ولا یخافون لومۃ لآئم وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔ یعنی اگر کوئی شخص ان کے دین پر طعن کرے تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ دین کا کام جاری رکھتے ہیں۔ غرضیکہ کسی باطل پرست کا طعن وشینع ان پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہوتا اور وہ خلوص دل کے ساتھ اپنے دین پر قائم رہتے ہیں۔ ابن عربی (رح) نے کہا ہے ؎ اذالعترعلی الرشاد لنفسہ ھانت علیہ ملامۃ العذال انسان اپنے نفس کی ہدایت کو خوب پہچانتا ہے ۔ ملامت کرنے والوں کی ملامت اسے معمولی چیز معلوم ہوتی ہے اور وہ اس کی کچھ پرواہ نہیں کرتا۔ غرضیکہ اگر کوئی شخص خلوص نیت سے دین کا کام کرتا ہے تو اغیار کا طعن و ملامت اس پر کچھ اثر نہیں کرتا ‘ وہ اپنے کام میں محورہتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص حضور ﷺ کی کسی سنت پر عمل کرتا ہے اور لوگ اسے استنہ کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس کو ملامت کرتے ہیں تو وہ ان چیزوں سے لاپروا ہو کر سنت پر عمل جاری رکھتا ہے۔ اسی چیز کو فرمایا کہ محبان خدا کی ایک صفت یہ بھی ہے۔ کہ وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کچھ پرواہ نہیں کرتے۔ سات زریں اصول مسند احمد اور بیہقی میں حضرت ابو ذر غفاری ؓ سے روایت ہے جسے امام ابن کثیر (رح) نے بھی نقل کیا ہے۔ حضرت ابو ذر غفاری ؓ فرماتے ہیں۔ امرنی خلیلی میرے پیارے دوست اور پیارے رسول ﷺ نے مجھے سات چیزوں کا حکم دیا۔ پہلا حکم یہ تھا بحب المساکین وزلفا منھم یعنی میں مساکین کے ساتھ محبت کروں اور ان کے قریب رہوں حضور ﷺ کو خود بھی غربا و مساکین سے بڑی محبت تھی اور آپ کو ان کی رفاقت محبوب تھی چناچہ دعا میں فرمایا کرتے تھے اللھم ارزقنی حب المساکین اے اللہ مجھے مساکین کی محبت عطا فرما ‘ ان سے نفرت نہ ہوے آپ یہ بھی فرماتے تھے واحشرنی فی زمرۃ المساکین مولا کریم ! میرا حشر بھی مساکین کے ساتھ ہی کرنا۔ آپ دنیا میں بھی غربا و مساکین کے پاس بیٹھتے اور وہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ سرور دو عالم ﷺ ہمارے پاس بیٹھتے ہیں اور ہم سے محبت کرتے ہیں۔ صحابی رسول فرماتے ہیں کہ محبوب خدا نے مجھے دوسری نصیحت یہ فرمائی۔۔ ان انظر علی مادونی ولا انظر من ھو فوقی یعنی میں اپنے سے نیچے والے کی طردیکھوں اور اوپر والے کی طرف نہ دیکھوں ‘ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے ۔ جو شخص اس نصیحت پر عمل کرے گا وہ خدا تعالیٰ کی کسی نعمت کو حقیر نہیں جانے کا۔ ظاہر ہے کہ جو شخص اپنے سے امیر آدمی کو دیکھے گا۔ وہ اپنے آپ کو غریب سمجھ کر ناشکری کا مرتکب ہوگا۔ اور جو شخص اپنے سے کمزور آدمی کی طرف دیکھے گا۔ وہ خود کو بہتر پاکر اللہ کا شکر ادا کرے گا اور اللہ کی عطا کردہ کسی نعمت کو حقیر نہیں سمجھے گا۔ تیسری چیز فرمایا 1 ؎ ان اصل الرحم وان ۔۔۔ یہ کہ میں صلہ رحمی کروں چاہے میرے قرابتدار مجھ سے دوری اختیار کریں۔ حضرت ابو ذر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے چو تھی بات یہ فرمائی ان لا اسئل احدا “ یہ کہ میں کسی سے سوال نہ کروں واذا سئلت فاسئل اللہ اور جب بھی سوال کروں تو خدا تعالیٰ سے کروں۔ چونکہ ہر چیز کا داتا وہی ہے۔ سب کچھ اسی کے اختیار میں ہے لہذا سوال بھی اسی سے کرنا چاہیے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے پانچواں حکم یہ دیا ان اقول الحق وان کان مر “ یہ کہ میں سچی بات کہوں اگرچہ یہ تلخ ہی کیوں نہ ہو۔ حضرت عمر ؓ کا بھی یہ خاص و صف تھا کہ وہ بالکل سچی بات کرتے تھے اگر چہ لوگ گھبرا جاتے تھے۔ فرمایا چھٹی بات یہ ہے الا اخاف فی اللہ لومۃ لائم یعنی میں اللہ اور اس کے دین کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف نہ کھائو یا اور اپنی بات پر قائم رہوں۔ حضور ﷺ نے ساتویں اور آخری بات یہ فرمائی کہ میں کثرت سے لاحول ولاقوۃ الا باللہ کا ورد کرتا رہوں۔ یہ توحید کا حکم ہے اور نیکی بجا لانے اور برائی سے بچنے کی توفیق کو اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے ۔ یہ کلمات اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا انھن کنز من کنز تحت العرش یہ کلمات عرش کے خزانوں سے ایک خزانہ ہے۔ اگر یہ عقیدہ راسخ ہوجائے تو بہت بڑی بات ہے۔ ایسا شخص کامل الایمان جاتا ہے۔ 1 ؎ بن کثیر ص 76 (فیاض) الغرض ! فرمایا کہ وہ لوگ اللہ کے دین کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کھاتے ذلک فضل اللہ یئو تیہ من یشآء یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ‘ وہ جسے چاہے عطاکردے۔ عقیدے کی پختگی ‘ اللہ سے محبت ‘ ایمان والوں کے لیے نرمی ‘ کفار کے لیے سختی ‘ اللہ کے راستے میں جہاد اور ملامت کرنے والوں سے لاپرواہی ‘ یہ سب اللہ کے فضل میں داخل ہیں۔ وللہ واسع علیم اور اللہ تعالیٰ وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ وہ ہر شخص کی صلاحیت اور استعداد کو جانتا ہے۔ اسی استعداد کے مطابق وہ عطا کرتا ہے۔ سچے دوست فرمایا انما ولیکم اللہ ورسولہ بیشک تمہارا دوست اور رفیق حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ والذین امنوا اور اہل ایمان بھی تمہارے دوست ہیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دوستی اللہ ‘ اس کے رسول اور اہل ایمان سے ہونی چاہیے۔ اگر تم اس معیار پر پورے اترے تو اللہ تعالیٰ غلبے کی صورت بھی پیدا کر دے گا اور یہود و نصاریٰ اور مرتدین تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ تمہارا کام یہی ہے کہ تعلق باللہ قائم رکھو ‘ اسی کے مطیع و فرمانبردار بن جائو ‘ خدا وند تعالیٰ کو اپنا کار ساز ‘ متولی اور مالک سمجھتے ہوئے تمام کام اسی کی رضا کے مطابق انجام دو ۔ اللہ کے رسول کے ساتھ محبت کرنا بھی جزو ایمان ہے۔۔۔۔ اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ آپ کے بتلائے ہوئے طریقہ کو اپنا لو اور آپ کی سنت کو زندہ رکھو۔ اسی طرح ادندرونی طور پر ربط و ضبط اور دوستی ایمان والوں کے ساتھ ہونی چاہیے۔ ان کے ساتھ اتحاد و اتفاق ہی کے ذریعے دشمن کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اگر ان امور کی انجام دہی کرتے رہو گے تو دشمن کبھی غالب نہیں آسکتا ” انتم الا علون ان کنتم مئومنین “ اگر تم مومن ہو گے ‘ تو غلبہ تمہارا ہی ہوگا۔ اہل ایمان کی صفات آگے اللہ نے ان مومنین کی صفات بیان فرمائی ہیں جن کی دوستی کی ترغیب دی گئی ہے۔ فرمایا تمہارے دوست وہ ہونے چاہئیں۔ الذین یقیمون الصلوۃ جو نما ز قائم کرتے ہیں۔ نماز تعلق باللہ کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والی عبادتوں میں سے بہترین عباد ہے۔ فرمایا تمہارے مومن دوست وہ ہوں ویئو تون الذکوۃ جو زکوۃ ادا کرتے ہوں۔ ظاہر ہے کہ زکوۃ کے دو فائدے ہیں۔ اس کی وجہ سے انسان کے ذہن سے حرص و بخل کا مادہ خارج ہوتا ہے یعنی انسان کو مہذب بنانے والی چیز یہی زکوۃ ہے۔ زکوۃ کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے غرباء و مساکین کی حاجات پوری ہوتی ہیں۔ یہ انسان کو پاکیزگی دلانے والی چیز ہے۔ نماز بدنی عبادت ہے اور زکوۃ مالی عبادت دونوں چیزوں کا آپس میں ربط ہے۔ سورة توبہ میں کفار و مشرکین کے متعلق فرمایا کہ اگر وہ توبہ کرلیں ” وقاموا الصلوۃ واتوالزکوۃ فاخوانکم فی الدین “ اور وہ نماز ادا کرنے لگیں اور زکوۃ دینے لگیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔ غرضیکہ ایمان لانے کے بعد نماز و زکوۃ کی ادائیگی اولین عمل ہے جس کے بغیر ایمان کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ فرمایا اہل ایمان کی ایک صفت یہ بھی ہے وھم راکعون وہ رکوع کرنے والے ہیں۔ صاحب روح المعانی (رح) امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہاں رکوع سے مراد صرف نماز والا رکوع نہیں بلکہ اس سے مراد عاجزی اور انکساری ہے۔ بعض دوسرے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہاں پر رکوع کا خصوصی تذکرہ یہودیوں کے ساتھ امتیاز کی وجہ سے ہے۔ یہودیوں کی نماز میں رکوع نہیں ہوتا ‘ اس لیے یہاں خاص طور پر فرمایا کہ انکے ایمان لانے کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ رکوع کرنے لگیں رکوع و سجود دونوں رکن عاجزی کی علامت ہیں مگر رکوع کی نسبت سجدے میں اعلیٰ درجے کی عاجزی پائی جاتی ہے۔ اسی لیے ہر رکعت میں رکوع ایک ہے مگر سجدے دو ہیں رکوع و سجود دونوں چیزیں فرض ہیں ان کے بغیر نماز نہیں ہوتی ‘ لہذا یہاں پر رکوع کا خصوصی ذکر فرمایا۔ حزب اللہ فرمایا ومن یتول اللہ ورسولہ ‘ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ دوستانہ کرے گا والذین امنوا اور ان اہل ایمان سے دوستی کرے گا۔ جن کی صفات بیان ہوچکی ہیں یعنی جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو لازم پکڑتے ہیں اور پھر اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا سلوک کرتے ہیں فرمایا فان حزب اللہ ھم الغالمون تو یہی اللہ کی پارٹی اور اس کے گروہ کے ممبر ان ہیں۔ اور یہی غالب ہوں گے۔ آخری کامیابی انہی کے مقدر میں ہے۔ سورة مومن میں فرمایا ہے ” انا لننصر رسلنا والذین امنوا فی الحیوۃ الدنیا ویوم یقو م الاشھاد “ ہم اپنے انبیاء اور اہل ایمان کی دنیا میں بھی مدد کریں گے اور قیامت والے دن بھی مدد کریں گے جب کہ مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہوگی۔ اس طرح اللہ کے دوستوں کو دنیا و آخرت ہر دو مقامات پر کامیابی حاصل ہوگی اور انہی کا مشن غالب رہیگا۔ آخرت میں خاص طور پر ان کے حق میں گواہیاں ہوں گی ‘ ان کے درجات بلند ہوں گے اور وہ عذاب سے بچ جائیں گے۔ غرضیکہ اللہ کا گروہ ہی غالب رہیگا۔ اگر دنیا میں کبھی مسلمانوں کو شکست آجائے۔ یا کسی معاملہ میں کمزوری واقع ہوجائے تو سمجھ لینا چاہیے۔ کہ اس آیت میں بیان کردہ صفات میں کمی واقع ہوگئی ہے۔ مومن اپنے معیار پر وپرے نہیں اتر رہے ہیں۔ مثلاً نماز زکوۃ میں کوتاہی واقع ہوگئی ہے یا دوسرے اہل ایمان کیلئے جذبہ محبت کو ٹھیس پہنچی ہے یا جہاد فی سبیل اللہ سے جی چرایا ہے ۔ اگر مومنین کی تمام شرائط پوری کی جائینگی “ تو پھر اللہ تعالیٰ کی نصرت ضرور شامل حال ہوگی اور دنیا و آخرت میں اہل ایمان ہی غالب ہوں گے۔ بعض اوقات اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش بھی آجاتی ہے اور کامل الایمان لوگوں کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے ‘ مگر وہ مغلوب نہیں کہلاتے کیونکہ ان کا ایمان بہر حال قائم ہوتا ہے۔ وہ ایسی آزمائشوں میں کندن بن کر نکلتے ہیں اور پھر نئے جوش اور جذبہ کے ساتھ اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے ہمہ تن مصروف ہوجاتے ہیں۔ انہیں اللہ کی توحید اور اس کے وعدے پر پختہ یقین ہوتا ہے۔ امام محمد بن ابی بکر عبد القادر رازی بھی فرماتے ہیں ‘ کہ بعض اوقات اہل ایمان مادی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں مگر حقیقت میں وہ مغلوب نہیں ہوتے کیونکہ دلیل ‘ برہان ‘ اور عقیدے کو ہمیشہ غلبہ حاصل ہوتا ہے۔
Top