Siraj-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 146
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ١ۙ مَعَهٗ رِبِّیُّوْنَ كَثِیْرٌ١ۚ فَمَا وَ هَنُوْا لِمَاۤ اَصَابَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ مَا ضَعُفُوْا وَ مَا اسْتَكَانُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ
وَكَاَيِّنْ : اور بہت سے مِّنْ نَّبِيٍّ : نبی قٰتَلَ : لڑے مَعَهٗ : ان کے ساتھ رِبِّيُّوْنَ : اللہ والے كَثِيْرٌ : بہت فَمَا : پس نہ وَهَنُوْا : سست پڑے لِمَآ : بسبب، جو اَصَابَھُمْ : انہیں پہنچے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ وَمَا : اور نہ ضَعُفُوْا : انہوں نے کمزوری کی وَمَا اسْتَكَانُوْا : اور نہ دب گئے وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
اور بہت نبی ہیں جن کے ساتھ بہت خدا پرستوں نے مل کر جہاد کیا ، سو وہ اس مصیبت سے جو انہیں راہ خدا میں پہنچی ، نہ سست ہوئے اور نہ تھکے اور نہ دبے اور خدا ثابت رہنے والوں سے محبت رکھتا ہے (ف 1)
تلقین عزیمت : (ف 1) جب غزوہ احد میں بھاگڑ مچی اور عبداللہ ابن قیمہ نے یہ مشہور کردیا کہ رسالتمآب ﷺ شہید ہوگئے ہیں تو بعض مسلمان ہمتیں ہار بیٹھے اور جم کر نہ لڑ سکے ، حضور ﷺ نے فرمایا ” الی عباد اللہ “ کہ خدا کے بندو ادھر آؤ ، لوگ حضور کے گردا گرد جمع ہوگئے ، آپ ﷺ نے پوچھا کہ یہ تمہیں ہوگیا جو تم بھاگ کھڑے ہوئے ؟ انہوں نے کہا ، ہم نے جب سنا کہ آپ ﷺ ہم میں نہیں رہے تو ہم گھبرا گئے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ محمد ﷺ کی حیثیت ایک پیغمبر سے زائد نہیں ، اس سے پہلے بہت سے پیغمبر ہو گزرے ہیں ، ہوسکتا ہے آپ اس دنیا کو چھوڑ جائیں ، کیا اس صورت میں تم دین مستقیم کو چھوڑ دو گے ؟ دوسرے لفظوں میں بتانا یہ مقصود تھا کہ انبیاء (علیہم السلام) ایک خاص مشن کی تکمیل کے لئے تشریف لاتے ہیں اور جب وہ تکمیل پذیر ہو چکتا ہے ‘ رفیق اعلی سے جاملتے ہیں ، یہ قطعا ضروری نہیں ہے کہ وہ قیامت تک امت میں زندہ رہیں اور امت کو راہ راست پر لاتے رہیں ، بلکہ ہر نبی کے لئے ایک وقت مقرر ہوتا ہے ، جب وہ وقت آجاتا ہے تو پھر عام انسانوں کی طرح قفس عنصری کو چھوڑ جاتے ہیں ، اس لئے یہ عذر قرین دانش نہیں کہ چونکہ پیغمبر ہم میں نہیں ‘ اس لئے دین چھوڑ دیا جائے یا ان کی حمایت چھوڑ دی جائے چناچہ حضرت انس بن نضر ؓ اس نکتہ کو بھانپ لئے ، جب لوگ بھاگ رہے تھے اس وقت انہوں نے للکار کر کہا کہ اے قوم آؤ ۔ حضور ﷺ کے بعد جی کر کیا کرو گے ؟ اگر وہ فوت ہوگئے تو ان کا خدا تو زندہ ہے ہم اس کی محبت میں مر جائیں ، یہ آپ ﷺ کے بعد زندہ رہنے کی ذلت سے زیادہ موزوں ہے ، تقریبا اسی قسم کے جرات آموز الفاظ صدیق اکبر ؓ کے تھے ، جب حضور ﷺ کا انتقال ہوا ۔ آپ ؓ نے یہی آیت صحابہ ؓ اجمعین کے سامنے پیش کی اور بتایا کہ یہ خدا کا زبردست قانون ہے کہ جو اس دنیا میں آیا ہے ، وہ ضرور ایک نہ ایک دن اس دنیا کو چھوڑنے پر مجبور ہوگا ۔ یہ آیت کا سلیس اور صحیح مطلب ہے بعض لوگوں نے خواہ مخواہ اسے وفات مسیح (علیہ السلام) پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے ، آیت مذکورہ صرف اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ آپ ﷺ سے پہلے بھی انبیاء ہو گزرے ہیں وہ بھی انسان تھے اور انسانی حوادث سے ہو کر گزرے ہیں ، اس لئے حضرت محمد ﷺ بھی اوروں سے الگ حقیقت نہیں رکھتے ۔ اس آیت میں مسیح (علیہ السلام) کا کہیں ذکر نہیں ، البتہ عموم ہے ، کلیت واستغراق نہیں اور دوسرے مواضح پر جہاں ان کا نام ہے ، وضاحت سے حیات مسیح (علیہ السلام) کا ثبوت ملتا ہے ، منطقی طور پر مخصوص و متعین دعوی کے لئے و متعین دلائل ضروری ہیں ، مگر ہمارے مخالفین ہمیشہ خطابیات سے کام لیتے ہیں ۔
Top