Taiseer-ul-Quran - An-Nisaa : 115
وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ١ؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يُّشَاقِقِ : مخالفت کرے الرَّسُوْلَ : رسول مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جب تَبَيَّنَ : ظاہر ہوچکی لَهُ : اس کے لیے الْهُدٰى : ہدایت وَ : اور يَتَّبِعْ : چلے غَيْرَ : خلاف سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کا راستہ نُوَلِّهٖ : ہم حوالہ کردیں گے مَا تَوَلّٰى : جو اس نے اختیار کیا وَنُصْلِهٖ : اور ہم اسے داخل کرینگے جَهَنَّمَ : جہنم وَسَآءَتْ : بری جگہ مَصِيْرًا : پہنچے (پلٹنے) کی جگہ
مگر جو شخص راہ راست کے واضح ہوجانے کے بعد 153 رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راہ 153۔ 1 اختیار کرے تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیتے ہیں جدھر کا خود اس نے رخ کرلیا ہے، پھر ہم اسے جہنم میں جھونک دیں گے جو بہت بری بازگشت ہے
153 ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس آیت کا خطاب اسی منافق سے ہے جس نے چوری کی تھی۔ جب رسول اللہ ﷺ نے وحی الٰہی کی بنا پر مذکورہ مقدمہ کا فیصلہ بےگناہ یہودی کے حق میں دے دیا۔ تو اس منافق کو سخت صدمہ ہوا۔ وہ مدینہ سے نکل کر رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کی مختلف صورتیں :۔ اسلام اور رسول اللہ ﷺ کے دشمنوں کے پاس مکہ چلا گیا اور کھلم کھلا مخالفت پر اتر آیا۔ لیکن حکم کے لحاظ سے یہ خطاب سب لوگوں کے لیے ہے جس میں مسلمان بھی شامل ہیں اور یہ حکم قیامت تک کے لیے ہے۔ یعنی جو شخص بھی رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے طریق زندگی کو چھوڑ کر کوئی دوسرا طریق اختیار کرے گا وہ گمراہ ہوجائے گا اور جس قدر زیادہ مخالفت کرے گا اسی قدر گمراہی میں بڑھتا چلا جائے گا۔ اس کی یہ ذہنی اور عملی مخالفت اسے جہنم میں پہنچا کے چھوڑے گی۔ اب اس مخالفت یا گمراہی کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً شرکیہ عقائد و اعمال اپنا لے یا سنت کو چھوڑ کر بدعات میں جا پڑے یا سنت رسول کو حجت ہی نہ سمجھے، یا کوئی نیا نبی بھی تسلیم کرلے یا ایسے بدعی عقائد اپنے مذہب میں شامل کرے جن کا اس دور میں وجود نہ تھا وغیرہ وغیرہ۔ غرض مخالفت اور گمراہی کی بیشمار اقسام ہیں لہذا اس معاملہ میں مسلمان کو انتہائی محتاط رہنا چاہیے۔ 153۔ الف اجماع صحابہ حجت ہے :۔ اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اجماع امت یا صحابہ کرام کا کسی مسئلہ پر متفق ہوجانا منجملہ ادلہ شرعیہ ایک قابل حجت امر ہے اور اس اجماع کی مخالفت کرنے والا اور اجماع کو تسلیم نہ کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے تاہم اس سلسلہ میں دو باتوں کو ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ ایک یہ کہ صحابہ کرام کے اجماع کے حجت ہونے میں تو کسی کو کلام نہیں لیکن مابعد کے ادوار کا حجت ہونا بذات خود مختلف فیہ مسئلہ ہے اور راجح قول یہی ہے کہ مابعد کا اجماع امت کے لیے قابل حجت نہیں ہے۔ اور دوسرا یہ کہ صحابہ کا اجماع تو ثابت کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان کا زمانہ بھی محدود اور علاقہ بھی محدود تھا۔ لیکن مابعد کے ادوار میں اجماع امت کا ثابت کرنا ہی بہت مشکل ہے جبکہ امت اقصائے عالم میں پھیل چکی ہے اور علماء بھی ہر جگہ موجود ہیں۔ دور صحابہ کے بعد جتنے مسائل کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان پر امت کا اجماع ہے، ان میں سے زیادہ ایسے ہیں کہ ان کو فی الواقع ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
Top