Taiseer-ul-Quran - An-Nisaa : 116
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يَغْفِرُ : نہیں بخشتا اَنْ يُّشْرَكَ : کہ شریک ٹھہرایا جائے بِهٖ : اس کا وَيَغْفِرُ : اور بخشے گا مَا : جو دُوْنَ : سوا ذٰلِكَ : اس لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَمَنْ : اور جس يُّشْرِكْ : شریک ٹھہرایا بِاللّٰهِ : اللہ کا فَقَدْ ضَلَّ : سو گمراہ ہوا ضَلٰلًۢا : گمراہی بَعِيْدًا : دور
اللہ کے ساتھ اگر کسی کو شریک بنایا جائے تو یہ گناہ وہ کبھی معاف نہیں کرے گا اور اس کے علاوہ جو دوسرے گناہ ہیں انہیں وہ جسے چاہے 154 معاف کردے۔ اور جس نے کسی کو اللہ کا شریک بنایا وہ گمراہی میں دور تک چلا گیا
154 اس آیت سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں : 1۔ شرک ناقابل معافی جرم ہے جسے اللہ کسی صورت میں بھی معاف نہیں کرے گا۔ 2۔ کیسے گناہوں کی معافی کی توقع ہوسکتی ہے :۔ دوسرے گناہوں کے متعلق یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ معاف ہوجائیں گے۔ اللہ جس کو چاہے اور جونسا گناہ چاہے معاف کردینے کا اختیار رکھتا ہے اور چاہے تو ان پر مواخذہ بھی کرسکتا ہے۔ گناہ بھی دو قسم کے ہوتے ہیں یا ایک ہی گناہ میں دو قسم کے حقوق ہوتے ہیں۔ ایک اللہ کا حق، دوسرے بندوں کا حق، اللہ جسے چاہے اپنا حق معاف کر دے اور جسے چاہے نہ کرے مگر بندوں کے حقوق کی ادائیگی لازمی ہے تب ہی اللہ اپنا حق بھی معاف کرے گا۔ بندوں کا حق خواہ اس دنیا میں ادا کردیا جائے یا ان سے معاف کرا لیا جائے یا اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے حقدار کو بدلہ اپنی طرف سے ادا کر دے۔ بہرحال بندوں کے حقوق کی معافی کے بعد اللہ کے حق کی معافی کی توقع ہوسکتی ہے۔ 3۔ اور تیسری بات یہ کہ شرک ہی سب سے بڑی گمراہی ہے۔ شرک کو ہی ایک دوسرے مقام پر ظلم عظیم کہا گیا ہے۔
Top