Siraj-ul-Bayan - Hud : 39
فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ١ۙ مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ یَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ
فَسَوْفَ : سو عنقریب تَعْلَمُوْنَ : تم جان لوگے مَنْ يَّاْتِيْهِ : کس پر آتا ہے عَذَابٌ : ایسا عذاب يُّخْزِيْهِ : اس کو رسوا کرے وَيَحِلُّ : اور اترتا ہے عَلَيْهِ : اس پر عَذَابٌ : عذاب مُّقِيْمٌ : دائمی
اور تم کو جلد معلوم ہوجائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے اور جو اسے رسوا کرے گا اور کس پر ہمیشہ کا عذاب نازل ہوتا ہے
فسوف تعللمون من یاتیہ عذاب یخزیہ ویحل علیہ عذاب مقیم۔ اور آئندہ تم کو معلوم ہوجائے گا کہ کس پر رسوا کن عذاب آئے گا اور اٹل عذاب نازل ہوگا۔ چناچہ طوفان میں غرق ہونے کا عذاب ان پر آگیا اور سب ڈوب کر عالم برزخ میں پہنچ گئے جہاں قیامت تک ان کو عذاب ہوتا رہے گا ‘ پھر قیامت میں ان پر عذاب ہوگا اور دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ بغوی نے لکھا ہے : اہل تورات کا خیال ہے کہ اللہ نے حضرت نوح کو حکم دیا تھا کہ ساگوان یا سار کی لکڑی کی کشتی بنائیں جس کا سینہ آگے کو نکلا ہوا ہو اور کشتی کے اندر باہر ہر طرف روغن قار کا پالش کردیں۔ کشتی کی لمبائی اسّی ہاتھ ‘ چوڑائی پچاس ہاتھ اور اونچائی تیس ہاتھ ہو۔ ہاتھ سے مراد ہے انگلیوں کے پوروں سے مونڈھے تک پورا ہاتھ (یعنی آدھا گز مراد نہیں ہے) اور تین منزلیں بنائیں ‘ نچلی ‘ درمیانی اور بالائی ‘ اور بالائی منزل میں دریچے رکھیں۔ حضرت نوح نے حکم کے مطابق کشتی بنائی۔ اسحاق بن بشر اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ اللہ نے جب حضرت نوح کو کشتی بنانے کا حکم دیا تو حضرت نوح نے عرض کیا : میرے مالک ! تختے کہاں ہیں ؟ اللہ نے فرمایا : ساگوان یا سار کا درخت لگاؤ۔ حضرت نوح نے سار کا درخت بویا ‘ بیس برس تک وہ درخت پرورش پاتا رہا۔ اس مدت میں نہ حضرت نوح نے تبلیغ کی ‘ نہ قوم والوں نے کوئی استہزاء کیا۔ جب درخت بھرپور ہوگیا تو اللہ کے حکم سے حضرت نوح نے اس کو کاٹ کر خشک کیا اور عرض کیا : اے میرے رب ! میں گھر (یعنی کشتی کی شکل) کیسے بناؤں ؟ حکم ہوا : اس کی تین شکلیں رکھو ‘ اگلا سرا تو مرغ کے سر کی طرح ہو اور پچھلا حصہ بھی مرغ کی دم کی طرح اور سینہ پرندے کے سینہ کی طرح (آگے کو نکلا ہوا) اور دونوں پہلوؤں پر دریچے ہوں اور لوہے کی کیلوں سے اس کو مضبوط کردیا گیا ہو۔ اللہ نے حضرت جبرئیل کے ذریعہ حضرت نوح کو کشتی بنانا سکھا دی۔ ابن عساکر نے حضرت سعید بن مسیب کی وساطت سے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص اور حضرت کعب کا بیان بھی یہی نقل کیا ہے۔ بغوی نے حضرت ابن عباس ؓ کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت نوح نے دو سال میں کشتی تیار کی۔ کشتی کا طول تین سو ہاتھ اور عرض پچاس ہاتھ اور اوپر کو بلندی تیس ہاتھ تھی۔ کشتی کی ساخت سار کے تختوں کی تھی اور تین درجے تھے ‘ نچلے درجہ میں جنگلی جانور اور درندے اور چوپائے تھے ‘ درمیانی منزل میں گھوڑے ‘ اونٹ (اور پالتو چوپائے) تھے اور بالائی منزل میں حضرت نوح اور آپ کے ساتھی اور کھانے پینے کا ضروری سامان تھا۔ ابن مردویہ نے حضرت سمرہ بن جندب کی روایت سے بیان کیا ہے کہ کشتی کا طول تین سو ہاتھ ‘ عرض پچاس ہاتھ اور اونچائی تیس ہاتھ تھی۔ ابن المنذر ‘ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس کے حوالہ سے جو روایت بیان کی ہے ‘ اس میں عرض کا ذکر نہیں ہے۔ عبدبن حمید اور ابن المنذر اور ابو الشیخ نے قتادہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ کشتی کی لمبائی تین سو ہاتھ اور چوڑائی پچاس ہاتھ اور اونچائی میں لمبائی تیس ہاتھ تھی۔ اس روایت میں اتنا زائد ہے کہ عرض میں اس کا دروازہ تھا۔ ابن جریر نے حضرت ابن عباس کے حوالے سے بیان کیا کہ کشتی کے تین طبقے تھے ‘ ایک طبقے میں جنگلی جانور ‘ چوپائے اور درندے تھے ‘ دوسرے طبقے میں پرندے تھے۔ شرح خلاصۃ السیرین میں آیا ہے کہ نچلے طبقے میں پرندے ‘ چوپائے اور جنگلی جانور وغیرہ تھے اور درمیانی طبقے میں کھانے پینے کی چیزیں اور کپڑے تھے اور بالائی طبقہ آدمیوں کیلئے تھا۔ شامی نے لکھا ہے کہ کشتی کا طول اسّی ہاتھ تھا اور عرض پچاس ہاتھ اور بلندی اوپر کو تیس ہاتھ۔ اور ہاتھ سے مراد ہے (پنجہ سے) مونڈھے تک۔ ایک روایت میں حضرت ابن عباس ؓ کا قول آیا ہے کہ کشتی کی لمبائی چھ سو ہاتھ تھی۔ بغوی نے لکھا ہے کہ ایک روایت میں حسن کا قول آیا ہے کہ کشتی کا طول بارہ سو ہاتھ اور عرض چھ سو ہاتھ تھا۔ مشہور اوّل روایت ہے کہ طول تین سو ہاتھ تھا۔ زید بن اسلم کا قول ہے کہ حضرت نوح سو برس تک درخت بوتے اور (لکڑی) کاٹتے رہے اور سو برس تک کشتی بناتے رہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ چالیس برس تک درخت بوئے اور چالیس برس تک (ان کی لکڑی کو) خشک کرتے رہے۔ کعب احبار کا قول آیا ہے کہ حضرت نوح نے تیس برس میں کشتی بنائی۔ یہ بھی منقول ہے کہ کشتی کی تین منزلیں تھیں ‘ نچلا درجہ چوپایوں اور جنگلی جانوروں کیلئے تھا ‘ درمیانی منزل میں آدمی تھے اور بالائی طبقے میں پرندے۔ جب جانوروں کا گوبر زیادہ ہوگیا تو حضرت نوح کے پاس وحی آئی کہ ہاتھی کی دم دباؤ۔ دُم دباتے ہی ہاتھی کے اندر سے ایک سور اور سوریا نکل پڑی اور دونوں نے گوبر (کھا کر) صاف کردیا۔ چوہوں نے جب کشتی کو نقصان پہنچایا اور رسیاں کاٹنے لگے تو اللہ کی طرف سے حضرت نوح کو حکم ہوا کہ شیر کی دونوں آنکھوں کے درمیان ضرب لگاؤ۔ ضرب لگاتے ہی شیر کی ناک کے سوراخوں سے ایک بلی اور ایک بلّا نکل پڑے اور دونوں چوہوں پر دوڑ پڑے۔
Top