Tadabbur-e-Quran - Yunus : 78
قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَا وَ تَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِیَآءُ فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ مَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِیْنَ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَجِئْتَنَا : کیا تو آیا ہمارے پاس لِتَلْفِتَنَا : کہ پھیر دے ہمیں عَمَّا : اس سے جو وَجَدْنَا : پایا ہم نے عَلَيْهِ : اس پر اٰبَآءَنَا : ہمارے باپ دادا وَتَكُوْنَ : اور ہوجائے لَكُمَا : تم دونوں کے لیے الْكِبْرِيَآءُ : بڑائی فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَمَا : اور نہیں نَحْنُ : ہم لَكُمَا : تم دونوں کے لیے بِمُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والوں میں سے
وہ بولے کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اس طریقہ سے ہٹا دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا اور ملک میں سیادت تم دونوں کو حاصل ہوجائے ؟ اور ہم تو تم دونوں کی بات کبھی ماننے والے نہیں
حضرت موسیٰ پر ایک سیاسی الزام : قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا وَتَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاۗءُ فِي الْاَرْضِ ۭ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِيْنَ۔ فرعونیوں کا یہ فقرہ نہایت زہر آلود ہے۔ انہوں نے اپنی قوم کو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے خلاف بھڑکانے کے لیے ان پر آبائی دین اور ملک کی حکوت، دونوں کے خلاف بغاوت برپا کرنے کا الزام تھوپ دیا کہ تم ہمارے آبائی دین سے بھی ہم کو برگشتہ کرنا چاہتے ہو اور تمہاری یہ آرزو بھی ہے کہ اس ملک کا اقتدار تم دونوں کے ہاتھ آجائے۔ ہم سورة اعراف کی تفسیر میں تورات کے حوالوں کی روشنی میں واضح کرچکے ہیں کہ مصرف میں اس وقت جو ارسٹوکریسی برسراقتدار تھی وہ اسرائیلیوں کی روز افزوں ترقی پذیر تعداد سے بہت خائف تھی کہ مبادا ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوجائے کہ یہ قبطیوں کو ہٹا کر خود اقتدار پر قابض ہوجائیں چناچہ اسرائیلی بچوں کو قتل کردینے کی جو سنگدلانہ اسکیم چلائی گئی تھی اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اس طرح بنی اسرائیل کی تعداد کو کنٹرول میں رکھا جاسکے۔ چونکہ یہ خطرہ ذہنوں میں موجود تھا اس وجہ سے جب حضرت موسیٰ کی دعوت بلند ہوئی تو اس کے خلاف یہ اشغلہ بھی چھوڑ دیا گیا کہ یہ ملک میں اقتدار حاصل کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ قبطی عصبیت پوری طرح ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار ہوجائے۔
Top