’لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَ‘ سے کلام کا پھر آغاز نہیں ہو رہا ہے، جیسا کہ عام طور پر لوگوں نے خیال کیا ہے، بلکہ یہ ’لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ‘ کے مفعول کے محل میں ہے یعنی اگر تم یقین کے ساتھ جانتے کہ جہنم کو لازماً دیکھو گے۔ ’لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَ‘ پر ’ل‘ اس یقین کی تعبیر کے لیے ہے جس کا ہونا مطلوب ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہ علم یقین جو ان باتوں کو ماننے کے لیے مطلوب ہے اس کے وسائل اللہ تعالیٰ نے آفاق و انفس کے شواہد اور قرآن کی آیات بینات میں رکھ دیے ہیں۔ اس وجہ سے ہر عاقل مکلف ہے کہ ان کو سمجھے اور مانے۔ جو ان سے گریز کرتا ہے، خواہ سمجھنے سے گریز کرتا ہے یا اس کے قبول کرنے سے وہ اپنی بدبختی کا ذمہ دار خود ہے۔ عند اللہ وہ اپنے اس گریز کی سزا بھگتے گا۔