بخیل سرمایہ داروں کی نہایت جامع تصویر: یعنی حقوق کی یاددہانی اور نصیحت کرنے والوں کو تو انھوں نے ہمز و لمز کے حربے سے چپ کرنے کی کوشش کی اور خود مال جمع کرنے اور اس کو گن گن کر سینتنے میں لگے رہے۔ مال کے حریص و بخیل مال داروں کی یہ نہایت جامع تصویر ہے۔ ان کا دل و دماغ ہمیشہ اپنے سرمایہ کے حساب و کتاب میں لگا رہتا ہے۔ کس کاروبار میں کتنا منافع ہوا ہے؟ فلاں سرمائے سے یافت کی کتنی توقع ہے؟ فلاں خسارہ جو ہوا ہے اس کی تلافی کی کیا صورت ہو گی؟ اگلے سال تک سرمایہ کی مجموعی مقدار کہاں تک پہنچ جائے گی؟ اسی طرح کے سوال ہمیشہ ان کے دل و دماغ پر مستولی رہتے ہیں۔ اگر کسی نے ذکر کیا کہ فلاں نے غریبوں اور یتیموں کی امداد کے لیے اتنا خرچ کیا ہے تو اس پر پھبتی چست کر دی کہ شیخی باز ہے، اپنی دولت مندی کی دھونس جماتا ہے۔ آخر ہم بھی تو ڈھیروں مال لٹاتے ہیں لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔