Tadabbur-e-Quran - Al-Humaza : 3
یَحْسَبُ اَنَّ مَالَهٗۤ اَخْلَدَهٗۚ
يَحْسَبُ : وہ گمان کرتا ہے اَنَّ : کہ مَالَهٗٓ : اس کا مال اَخْلَدَهٗ : اسے ہمیشہ رکھے گا
گویا اس کے مال نے اس کو زندہ جاوید کردیا۔
بخیلوں کے باطن پر انہماک کا عکس: یہ ان کے اس انہماک کے باطن پر عکس ڈالا گیا ہے کہ یہ انہماک پتہ دیتا ہے کہ وہ گویا یہ خیال کیے بیٹھے ہیں کہ یہ مال ان کو زندۂ جاوید رکھے گا۔ اگر وہ جانتے کہ یہ مال بھی فانی اور ان کی زندگی بھی فانی ہے تو وہ مال کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنے میں سبقت کرتے جو ان کی ابدی زندگی میں کام آنے والا ہوتا لیکن اس کی محبت میں ان کا یہ استغراق پتہ دیتا ہے کہ وہ اس مال ہی میں اپنی زندگی پا گئے ہیں۔ اسی ذہنیت کی تصویر سورۂ شعراء میں کھینچی گئی ہے: أَتَبْنُوۡنَ بِکُلِّ رِیْعٍ آیَۃً تَعْبَثُوۡنَ ۵ وَتَتَّخِذُوۡنَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُوۡنَ (الشعراء ۲۶: ۱۲۸-۱۲۹) ’’کیا تم ہر بلندی پر عبث یادگاریں تعمیر کرتے اور شان دار محل تعمیر کرتے رہو گے گویا تمہیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے۔‘‘ آدمی کے باطن کا سراغ دینے والی اصل چیز اس کی زبان نہیں بلکہ اس کی زندگی کا رویہ ہے۔ جو آدمی اسی دنیا کو اپنی منزل سمجھتا ہے اس کی زندگی اس شخص کی زندگی سے بالکل مختلف ہوتی ہے جو اس دنیا کو منزل نہیں بلکہ راہ سمجھتا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ جو شخص آخرت کا قائل اور اس کا طالب ہو وہ اپنا مال گن گن کر اس دنیا کے بنکوں اور تجوریوں میں رکھے بلکہ وہ اپنا مال اپنے خداوند کے پاس رکھتا ہے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ’’تو اپنا مال اپنے خداوند کے پاس رکھ اس لیے کہ جہاں تیرا مال رہے گا وہیں تیرا دل بھی رہے گا۔‘‘
Top