Tadabbur-e-Quran - Hud : 25
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ١٘ اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنِّىْ : بیشک میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا مُّبِيْنٌ : کھلا
اور ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرح رسول بنا کر بھیجا۔ اس نے ان کو آگاہ کیا میں تمہارے لیے ایک نذیر مبین ہو کر آیا ہوں
آگے کا مضمون۔ آیات 25 تا 99:۔ آگے آیات 99 تک ایک تاریخی ترتیب کے ساتھ پچھلے رسولوں اور ان کی قوموں کی سرگزشتیں سنائی گئی ہیں۔ ان کے سنانے سے مقصود ایک طرف تو نبی ﷺ کو یہ دکھانا ہے کہ آج جو کچھ تمہیں پیش آرہا ہے بعینہ وہی کچھ تم سے پہلے آنے والے رسولوں کو بھی پیش آچکا ہے، تو تم ان کی زندگیوں سے رہنمائی حاصل کرو اور جس طرح انہوں نے صبر و عزیمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا اسی طرح تم بھی حالات کا مقابلہ کرو۔ دوسری طرف قریش کو یہ دکھانا ہے کہ تم نے جو روش اپنے رسول کے ساتھ اختیار کی ہے وہی روش تمہاری پیش رو قوموں نے بھی اختیار کی تھی جس کے نتیجہ میں ایک خاص حد تک مہلت دیے جانے کے بعد وہ ہلاک کردی گئیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ جس طرح کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کیا اسی طرح کا معاملہ وہ تمہارے ساتھ نہ کرے۔ اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمائیے۔ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖٓ ۡ اِنِّىْ لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۔ حضرت نوح ؑ کی سرگزشت کی طرف اجمالی اشارہ پچھلی سورة میں بھی، آیات 71۔ 73۔ گزر چکا ہے۔ اس سورة میں اس اجمال کی تفصیل آرہی ہے۔ نذیر مبین کا مفہوم : نذبر مبین (کھلا ڈرانے والا) میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ رسول جس قہر و عذاب سے ڈراتا ہے اس کی نوعیت قیاسات اور انذاروں پر مبنی ارات و کنایات کی نہیں ہوتی بلکہ ایک واضح اور قطعی خبر اور اعلان کی ہوتی ہے اس لیے کہ اس کی بنیاد اول تو وحی الٰہی پر ہوتی ہے۔ ثانیاً یہ اس سنت الٰہی کا تقاضا بھی ہے جو رسول کی تکذیب کی صورت میں لازماً ظاہر ہوتی ہے۔ اس قطعیت کا اثر قدرتی طور پر اس کے الفاظ اور لب و لہجہ میں بھی نمایاں ہوتا ہے۔ وہ آنے والے خطرے کا اس طرح اعلان کرتا ہے گویا اپنی دونوں آنکھوں سے اس کو دیکھ رہا ہے۔ یہاں لفظ مبین میں ایک لطیف تلمیح بھی ہے اس کو بھی نگاہ میں رکھیے۔ عرب میں دستور رہا ہے کہ ہر قوم کے لوگ کسی بلند ٹیلہ یا پہاڑی پر دیدبان بناتے جہاں ہر وقت ایک نگران مقرر رہتا جس کا کام یہ ہوتا کہ جب وہ دیکھتا کہ کسی طرف سے حملہ آوروں کی کوئی جماعت اس کی قوم پر حملہ کیا چاہتی ہے تو وہ اپنے کپڑے پھاڑ کر ننگا ہوجاتا اور واصباحا کا نعرہ لگاتا۔ یہ پوری قوم کے لیے الارم ہوتا اور سب تلواریں سونت سونت کر مدافعت کے لیے باہر نکل آتے۔ اس کو " نذیر عریاں " کہتے تھے۔ خدا کے رسول بھی اپنی قوم کو آنے والے عذاب سے آگاہ کرنے کے لیے آئے اور انہوں نے بالکل اس طرح لوگوں کو اس سے آگاہ کیا گویا وہ عقب سے نمودار ہی ہونے والا ہے اس وجہ سے قرآن میں ان کے لیے نذیر مبین کے الفاظ استعمال ہوئے۔
Top