Tadabbur-e-Quran - An-Nahl : 95
وَ لَا تَشْتَرُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ اِنَّمَا عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَ : اور لَا تَشْتَرُوْا : تم نہ لو بِعَهْدِ اللّٰهِ : اللہ کے عہد کے بدلے ثَمَنًا : مول قَلِيْلًا : تھوڑا اِنَّمَا : بیشک جو عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے ہاں هُوَ : وہی خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : تم جانو
اور اللہ کے عہد کو متاع قلیل کے عوض نہ بیچو جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو
وَلَا تَشْتَرُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۭ اِنَّمَا عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ اشتراء بمعنی ترجیح و مبادلہ : لفظ اشتراء پر سورة بقرہ کی تفسیر میں بھی بحث کرچکے ہیں اور آل عمران کی آیت 77 کے تحت بھی۔ جب مبادلہ چیز کا چیز سے ہو، جیسا کہ عموماً زمانہ ادیم میں رواج رہا ہے تو ہر شے مبیع بھی ہوسکتی ہے اور ثمن بھی۔ اس وجہ سے کسی شے کا اشتراء اس مفہوم میں خریدنا نہیں ہوتا جس مفہوم میں ہم خریدنا بولتے ہیں بلکہ اس کا مفہوم مبادلہ ہوتا تھا۔ اس وجہ سے لفظ اشتراء مبادلہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور پھر اس مفہوم سے ترقی کرکے ترجیح دینے کے معنی بھی۔ ثمن قلیل سے مراد دنیا اور متاع دنیا ہے اور ما عنداللہ سے مراد اجر آخرت ہے۔ اجر آخرت کے مقابل میں خواہ دنیا اور متاع دنیا کی کتنی ہی بڑی مقدار حاصل ہوجائے وہ بہرحال ناچیز اور حقیر ہی ہے اس لیے کہ وہ چند روزہ اور فانی ہے اور اجر آخرت ابدی اور لازوال ہے۔ فرمایا کہ عہد الٰہی کو حقیر منفعت دنیوی کے عوض نہ فروخت کرو۔ عہد الٰہی پر قائم رہنے کا اللہ کے ہاں جو صلہ ہے اس دنیا کی منفعتوں سے بدرجہا بڑھ کر ہے اگر تم اس حقیقت کو سمجھو
Top